کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 493
روایت کیا ہے اور اکٹھی نمازیں ادا کرنے کی حرمت کی حدیث حنش کی وجہ سے معلول ہے،جیسا کہ خود ہی اس کا اقرار کیا ہے۔ایسے ہی ایک بڑی جماعت نے اس پر سخت جرح کی ہے،لہٰذا دونوں حدیثوں کے درمیان ایک کی صحت اور دوسری کے ضعف کے سبب کوئی معارضہ نہیں ہوگا۔دونوں میں معارضے کے ثبوت اور دونوں کو صحت میں برابر فرض کرنے کی صورت میں تعارض اس وقت ہوگا،جب دونوں کے درمیان تطبیق ممکن نہ ہو،جب کہ ان دونوں کے درمیان کئی وجہ سے تطبیق ممکن ہے،اگر چہ عزیمت اور رخصت پر محمول کرنا جس سے اکثر جگہ متعارضین کے درمیان تطبیق دیتے ہیں،یہاں صحیح نہیں ہوگا،کیونکہ دو حدیثوں میں سے ایک حدیث وعید کی صراحت کر رہی ہے،جو رخصت کے منافی ہے: اوّل: یہ کہ آپ کا ارشاد:’’من جمع بین الصلاتین‘‘ مطلق ہے،جو ہر دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے پر صادق آتاہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث نے اسے ظہر کو عصر کے ساتھ اور مغرب کو عشا کے ساتھ پڑھنے کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کھلے فعل سے مقید بالجواز کیا ہے،تو یہ قول اس کے ماسوا کو حرام کرے گا اور فعل کی حدیث سے اس کی اباحت ہوگی۔ دوسری: یہ کہ حدیث مذکور کا معنی یہ ہے کہ جو شخص فوت شدہ اور وقتی دو نمازیں ایک ساتھ بایں طور پڑھے کہ نیند،نسیان یا بے ہوشی یا اس کے مانند عذرکے بغیر کوتاہی کی ہو،یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت آگیا تو ایسا کرنا کبائر کے ابواب میں سے ایک باب ہے اور وہ نماز کا فوت کرنا ہے۔تطبیق کی صورتوں میں سے،ایک اقرب صورت u رحمہما اللہ ہے کہ حدیث قولی میں حرمت غیر عذر سے مقید ہے اور فعل عذر کے ساتھ تھا،البتہ عذر صرف خوف،بارش،سفر اور بیماری میں محدود نہیں ہے،بلکہ یہ تمام اعذار سے عام ہے،وہ زیادہ ہوں یا تھوڑے یا کمزور عذر ہو یا بڑا ہو،جیسے کوئی گھریلو ضرورت،مہمان کی آمد یا اس کے سوا کوئی عذر ہو،کیونکہ یہ ایسا شغل ہے جس میں بعض پر نماز کے فوت ہونے کا خوف ہوتا ہے۔ پس مکروہ یا حرام اس شخص کا ایک ساتھ پڑھنا ہو گا جس نے بے سبب اسے عادت بنا لیا ہو یاسست و کاہل اور عبادت سے مائل بہ فراغت شخص ہو یا اجر کی طرف قلت رغبت اور شغل درشغل اور تعمیر اوقات متعددہ کی و جہ سے اﷲ کی طرف اداے فرائض کے ذریعے عدمِ توجہ اس کا سبب ہو،جیسا کہ باطل پرست امامیہ اور ان کے جاہلوں سے یہ دیکھا جاتا ہے۔یہ