کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 490
مسند احمد کی ایک روایت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ((فَأُتِيَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم بِسَکْرَانٍ فِيْ الرَّابِعَۃِ فَخَلّٰی سَبِیْلَہُ)) [1] [پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک نشئی کو لایا گیا،جس نے چوتھی مرتبہ شراب پی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (قتل سے) چھوڑ دیا] امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی سنن کی کتاب’’العلل‘‘ میں فرمایا ہے: ’’جمیع ما في ھٰذا الکتاب من الحدیث ھو معمول بہ،وبہ أخذ بعض أہل العلم ما خلا حدیثین: حدیث ابن عباس وحدیث النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم : فإن عاد في الرابعۃ فاقتلوہ،وقد بینا علۃ الحدیثین جمیعا في الکتاب‘‘[2]انتھیٰ۔ [اس کتاب کی تمام احادیث معمول بہ ہیں۔اہلِ علم نے بھی اسے قبول کیا ہے،سوائے دو حدیثوں کے،ایک ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے اور ایک نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث کہ اگر شرابی چوتھی مرتبہ شراب پیے تو اسے قتل کر دو۔ہم نے ان دونوں حدیثوں کی علت کتاب میں بیان کر دی ہے] جو کچھ انھوں نے اپنی اس کتا ب یعنی اپنی سنن میں بیان کیا ہے،وہ یہ کہ ابتدا میں یہی حکم تھا،اس کے بعد منسوخ ہوگیا۔اسی کے مانند جابر رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے،جیسا کہ گزرا اور ایسے ہی قبیصہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کیا ہے،جیسے گزرا یہ رخصت تھی۔عام اہلِ علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے اور اس باب میں قدیم وجدید میں ان کے درمیان ہم کوئی اختلاف نہیں جانتے۔[3] انتھیٰ۔ ’’دراسات اللبیب في الأسوۃ الحسنۃ بالحبیب‘‘ میں ہے: ’’اس کا قول کہ یہ ابتدا میں تھا اس کے بعد منسوخ ہوگیا۔اس چیز میں بغیر دلیل دعویٰ ہے،جس میں شریعت کی نص کے بغیر دعویٰ جائز نہیں۔ایسے ہی جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث صرف اس پر دلالت کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھی بار قتل نہیں کیا۔پس دونوں حدیثوں میں تطبیق ایسے ہوگی کہ قتل کا حکم چوتھی بار میں اباحت کے باب سے اور رخصت سیاست کے لیے ہے،ایجابِ حد کے لیے نہیں
[1] مسند أحمد (۲/۲۹۱) [2] العلل الصغیر للترمذي (ص: ۱) [3] سنن الترمذي،رقم الحدیث (۱۴۴۴)