کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 486
مارنا جائز ہے،نیز جس چیز سے بھی ان کو مسلمانوں کی لڑائی سے روکا جاسکے اور اہلِ اسلام کی مدد کی جاسکے۔[1] امام بخاری رحمہ اللہ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریش کے دو افراد کو جلانے کا حکم روایت کیا ہے،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نہی فرما دی۔[2] شوکانی رحمہ اللہ نے’’شرح مختصر ‘‘ میں فرمایا ہے کہ ضرورت کے بغیر عورتوں،بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرنا،ان کا مثلہ کرنا اور آگ میں جلانا،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی و جہ سے جو بخاری وغیرہ میں ہے،حرام ہے: ((بَعَثَنَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فِيْ بَعْثٍ فَقَالَ: إِنْ وَجَدْتُمْ فُلَاناً وَفُلَاناً لِرَجُلَیْنِ فَأَحْرِقُوْہُمَا بِالنَّارِ،ثُمَّ قَالَ: حِیْنَ أَرَدْنَا الْخُرُوْجَ إِنِّيْ کُنْتُ أَمَرْتُکُمْ أَنْ تُحْرِقُوْا فُلَاناً وَ فُلَاناً،وَإِنَّ النَّارَ لَا یُعَذِّبُ بِھَا إِلَّا اللّٰہُ فَإِنْ وَجَدْتُمُوْھُمَا فَاقْتُلُوْھُمَا)) [3] [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دستے کے ساتھ روانہ کیا اور دو آدمیوں کا نام لے کر فرمایا کہ اگر تم فلاں اور فلاں کو پاؤ تو انھیں آگ میں جلا دو،پھر جب ہم نے روانہ ہونے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمھیں فلاں فلاں آدمی کو آگ میں جلانے کا حکم جاری کیا تھا،جب کہ آگ کا عذاب صرف اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے،لہٰذا اگر تمھیں وہ دونوں آدمی مل جائیں تو ان کو قتل کر دو] رہا درخت،بتوں اور سازوسامان کو جلانا تو یہ ثابت ہے،جب ان کے جلانے میں مصلحت ہو۔[4] انتھیٰ،واللّٰہ أعلم۔ اکیسویں حدیث: علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا: ((أَھَدٰی لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم کِسْریٰ فَقَبِلَ مِنْہُ وَأَھَدیٰ لَہُ قَیْصَرُ فَقَبِلَ مِنْہُ
[1] سنن البیھقي (۹/ ۶۸) [2] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۲۸۵۳) [3] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۲۸۵۳) [4] الدراري المضیۃ (۲/ ۴۴۶)