کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 479
مدت پوری ہونے کے بعد عورت مرد کے دائرے سے باہر ہوجاتی ہے اور معاملے کا اختیار عورت کے ہاتھ میں ہوجاتا ہے اور وہ نہیں جانتی کہ کیا کرے۔نکاح صحیح میں عدت کا ضبط کرنا انتہائی دشوار ہے،حالانکہ اس کی بنا تابید پر ہوتی ہے تو متعہ میں کیا ہوسکتا ہے؟[1]انتھیٰ۔ ’’شرح السنۃ ‘‘ میں فرمایا ہے کہ علما نے تحریمِ متعہ پر اتفاق کیا ہے اور یہ اجماع بین المسلمین جیسا ہے۔اول اسلام میں یہ جائز تھا،پھر منسوخ ہوگیا۔[2] ابوالفرج رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ احادیث نسخِ متعہ پر متفق ہیں۔پہلی دو حدیثیں مکہ معظمہ میں اس کی تحریم پر دلالت کررہی ہیں۔علی رضی اللہ عنہ کی حدیث دلالت کر رہی ہے کہ اس کی تحریم خیبر میں تھی اور یہ تین وجہ سے مقدم ہے۔ایک یہ کہ اس کی صحت متفق علیہ ہے اور سبرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث افراد مسلم میں سے ہے۔دوسری یہ کہ علی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات کو دوسروں سے زیادہ جانتے تھے اور تیسری وجہ یہ کہ یہ تقدیم زمانہ کی مثبت ہے جبکہ وہ ان پر مخفی رہی۔گویا ان لوگوں نے فتح مکہ کے وقت اسے استعمال کیا جو ناسخ کا علم نہ ہونے کی وجہ سے جائز جانتے تھے۔پس انھیں منع کیا اور ایک جماعت پر اس کا نسخ مخفی رہ گیا،جن میں ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی ہیں۔[3] انتھیٰ۔ میں کہوں گا کہ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے اس باب کی شرح شافی طریقے پر کی ہے اور نفیس چیزیں لائے ہیں۔نووی رحمہ اللہ نے اس پر بہت سی چیزوں کا استدراک کیا ہے اور اس باب کا ترجمہ یوں بنایا ہے: ’’بیان نکاح المتعۃ وبیان أنہ أبیح ثم نسخ ثم أبیح ثم نسخ‘‘ اس کے بعد ماوردی اور قاضی رحمہما اللہ کے کلام کو مکمل ذکر کیا اور کہا ہے کہ راجح اور مختار تحریم ہے اور اباحت وحلت دو بار ہوئی۔خیبر سے پہلے یعنی اول اسلام میں،پھر خیبر کے روز حرام ہوگیا،پھر مکہ کے سال اوطاس کے روز جائز ہوا،پھر تین دن بعد تحریم موبد کے ذریعے قیامت تک کے لیے حرام ہوگیا،جیسا کہ مسلم نے روایت کیا ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اباحت جو کچھ کہا گیا،اس سے مختص تھی،خیبر کے دن تحریم تاکید کے لیے ہے اور جو کچھ فتح مکہ کے دن فرمایا،اباحت کے تقدم کے بغیر صرف تحریم کی تاکید ہے،جیسا کہ ماوردی اور قاضی عیاض رحمہما اللہ نے اختیار کیا ہے،کیونکہ مسلم کی مذکورہ روایات فتح کے روز اباحت کے بارے
[1] حجۃ اللّٰه البالغۃ (ص: ۶۹۳) [2] شرح السنۃ (۹/ ۹۹) [3] إخبار أھل الرسوخ (ص: ۳۶)