کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 477
نے فرمایا: حاجم اور محجوم دونوں نے ا فطار کردیا۔ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجامہ کرایا اور آپ محرم اور روزے دارتھے۔توظاہر ہوا کہ یہ اول سنہ آٹھ میں ہوا اور یہ آخری ۱۰ھ؁ میں۔انتھیٰ۔اس مسئلے کی پوری بحث ہم نے’’شرح بلوغ المرام‘‘ میں لکھی ہے،اس کی طرف رجوع کرو۔ چودھویں حدیث: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا: ((صَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَوْمَ عَاشُوْرَائَ،وَأَمَرَ بِصِیَامِہِ)) [1] (رواہ مسلم) [یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورا کا روزہ رکھا اور اس کا روزہ رکھنے کا حکم دیا] کہتے ہیں کہ یہ حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث’’فلما نزلت فریضۃ رمضان ترک یوم عاشوراء،فمن شاء صامہ ومن شاء أفطرہ‘‘ سے منسوخ ہے،’’یعنی جب رمضان کا فریضہ نازل ہوا تو عاشورا کا روزہ ترک کردیا گیا،پھر جس نے چاہا روزہ رکھا اور جس نے چاہا چھوڑ دیا۔‘‘ میں کہتا ہوں کہ اہلِ علم اس دن کے روزے کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں۔ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ اول اسلام میں فرض تھا،اس کے بعد نسخ پذیر ہوگیا۔شافعی رحمہ اللہ کی اس میں دو وجہ ہے،اس میں مشہور تر یہ ہے کہ روزہ جس دن سے شروع ہوا سنت ہے اور کبھی اس امت میں واجب نہیں تھا،لیکن اس کا استحباب متاکد تھا اور جب رمضان کا روزہ نازل ہوا تو وہ مستحب رہ گیا۔دوسری یہ کہ واجب تھا۔شافعی رحمہ اللہ کی دلیل یہ حدیث ہے: ((ھٰذَا یَوْمُ عَاشُوْرَائَ وَلَمْ یُکْتَبْ عَلَیْکُمْ صِیَامُہُ،وَأَنَا صَائِمٌ،فَمَنْ شَائَ صَامَ،وَمَنْ شَائَ فَلْیُفْطِرْ)) [2] [یہ یومِ عاشورا ہے،تم پر اس کا روزہ لکھا نہیں گیا،البتہ میں روزہ رکھوں گا،جو چاہے روزہ رکھ لے اور جو چاہے چھوڑ دے] دونوں مذاہب پر یہ روزہ مستحب سنت ہے،اس کے بعد کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلام ارشاد
[1] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۷۹۳) [2] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۱۸۹۹) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۱۲۹)