کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 475
رجوع کر لیا تھا۔[1]یہ بھی کہتے ہیں کہ رجوع نہیں کیا۔طاوس،عروہ اور نخعی رحمہ اللہ علیہم سے روایت ہے کہ اگر اپنی جنابت کو جانتا ہے تو صحیح نہیں،ورنہ صحیح ہے۔حسن بصری اور نخعی رحمہما اللہ سے حکایت کیا گیا ہے کہ نفل روزے میں حرام ہے نہ کہ فرض میں۔سالم بن عبداﷲ اور حسن بن صالح رحمہما اللہ سے حکایت کیا گیا ہے کہ روزہ رکھے اور قضا کرے،پھر یہ اختلاف اٹھ گیا اور علما نے بعد میں اس کی صحت پر اجماع کر لیا اور اختلاف کے بعد اجماع کی صحت میں اہلِ اصول کا مشہور اختلاف ہے۔لیکن سیدہ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی حدیث ہر مخالف پر حجت ہے۔واللّٰہ أعلم،کذا في عدۃ المنسوخ۔ تیرھویں حدیث: ((أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُوْمُ)) [2] (رواہ أحمد وابن ماجہ عن شداد بن أوس،وصححہ البخاري وأحمد وابن خزیمۃ وابن حبان) [سینگی لگانے اور لگوانے والے نے روزہ افطار کر لیا] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے’’تلخیص الحبیر‘‘ میں اس حدیث کے طرق کو صحابہ کی ایک جماعت سے بیان کیا ہے۔[3]‘’سبل السلام شرح بلوغ المرام‘‘ میں کہا ہے کہ’’أخرجہ الأئمۃ عن ستۃ عشر من الصحابۃ‘‘[4] سیوطی رحمہ اللہ نے’’جامع صغیر‘‘ میں کہا ہے کہ یہ حدیث متواترہے۔[5] بالجملہ اس میں دلیل ہے کہ حجامت حاجم اور محجوم دونوں کے لیے مفطر صوم ہے اور اسی کی طرف ایک چھوٹا سا گروہ،جیسے احمد بن حنبل اور ان کے پیرو اور ابن المبارک،اوزاعی،ابن حبان،اسحاق اور ابو ثور رحمہ اللہ علیہم گئے ہیں۔اس پر قضا اور کفارہ واجب ہے،چنانچہ ابن خزیمہ اور ابن منذر رحمہما اللہ اسی کے قائل ہیں۔کہتے ہیں کہ یہ حدیث انس بن مالک کی حدیث’’ثُمَّ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم رَخَّصَ فِي الْحِجَامَۃِ لِلصَّائِمِ‘‘[6] [یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے دار کو سینگی لگوانے کی رخصت عنایت فرمائی] سے منسوخ
[1] دیکھیں : صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۱۰۹) [2] صحیح البخاري (۲/۶۸۴) مسند أحمد (۴/۱۲۳) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۱۶۸۱) صحیح ابن خزیمۃ (۸/۳۰۳) [3] التلخیص الحبیر (۲/ ۱۹۳) [4] سبل السلام للصنعاني (۱/ ۸۴) [5] الجامع الصغیر للسیوطي (۱۳۰۹) [6] صحیح ابن خزیمۃ(۳/۲۳۱) االمعجم الأوسط للطبراني (۸/۱۰) نیز دیکھیں : إرواء الغلیل (۴/ ۷۲)