کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 473
یہ روایت قیام کے نسخ میں صریح ہے۔قاضی عیاض رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ سلف کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ قیام کا حکم علی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے منسوخ ہے۔[1] انتھی۔ابن عقیل رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ بایں طور تطبیق ممکن ہے کہ قیام مستحب ہو اور قعود جائز ہے،اس طرح اس میں نسخ نہیں ہے۔[2] میں کہتا ہوں کہ نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ لوگ اس مسئلے میں اختلاف کرتے ہیں۔مالک و ابو حنیفہ اور شافعی رحمہ اللہ علیہم قیام کو منسوخ کہتے ہیں۔احمد،اسحاق،ابن حبیب اور ابن ماجشون رحمہ اللہ علیہم نے کہا ہے کہ اختیار ہے اور اس شخص کے قیام میں،جو قبر تک جنازے کی مشایعت کرتا ہو،اختلاف ہے۔صحابہ رضی اللہ عنہم اور سلف کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ جب تک جنازہ زمین پر نہ رکھا جائے،کھڑا رہے۔نیز کہتے ہیں کہ اس شخص کے لیے قیام منسوخ ہے،جس کے پاس سے جنازہ گزرے۔اسی کے قائل اوزاعی،احمد،اسحاق اور محمد بن حسن رحمہ اللہ علیہم ہیں۔ قبر پر،جب تک دفن نہ کیا جائے،کھڑے ہونے میں اختلاف ہے۔ایک قوم نے اسے مکروہ کہا ہے اور دوسروں نے اس پر عمل کیا ہے۔یہ عثمان،علی اور ابن عمر وغیرہ رضی اللہ عنہم سے روایت کیا گیا ہے۔[3]‘’عدۃ المنسوخ‘‘ میں کہا ہے کہ یہ قاضی رحمہ اللہ اور اس کے بعد نووی رحمہ اللہ کا کلام ہے۔ہمارے مذہب میں مشہور یہ ہے کہ قیام مستحب نہیں ہے۔اس حدیث کو علی رضی اللہ عنہ کی حدیث سے منسوخ کہتے ہیں اور نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ مختار یہی ہے،پس اس کا حکم مندوب ہوگا۔قعود بیانِ جواز کے لیے ہوگا اور اس جیسے میں نسخ کا دعویٰ درست نہیں ہوتا،کیو ں کہ احادیث میں نسخ تطبیق کے متعذر ہونے پر ہوتا ہے اور یہاں متعذر نہیں ہے۔واللّٰہ أعلم۔ بارھویں حدیث: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہے: ((قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم : مَنْ أَدْرَکَہُ الصُّبْحُ وَھُوَ جُنُبٌ فَلَا صَوْمَ لَہٗ)) [4] [یعنی جسے سویرے نے پالیا اور وہ حالت جنابت میں ہو تو اس کا روزہ نہیں ہے]
[1] إکمال المعلم شرح صحیح مسلم للقاضي عیاض (۳/ ۲۲۷) [2] إخبار أھل الرسوخ (ص: ۳۱) [3] إکمال المعلم للقاضي عیاض (۳/ ۲۲۷) المجموع شرح المھذب (۵/ ۲۸۰) [4] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۱۸۲۹) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۱۰۹)