کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 468
اس حدیث میں اس روز کے غسل کا وجوب ہے۔کہتے ہیں کہ یہ سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے منسوخ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ تَوَضَّأَ لِلْجُمُعَۃِ فَبِھَا ونِعْمَتْ،وَمَنِ اغْتَسَلَ فَذٰلِکَ أَفْضَلُ)) [1] (أخرجہ أبوداؤد والنسائي والترمذي) [یعنی جس نے جمعے کے لیے وضو کیا،اس نے اچھا کیا اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل ہے] لیکن صحیح اس کا عدمِ نسخ ہے،کیونکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کو امت نے قبول کیا ہے اور تقریباً تین سو شخص اسے نافع سے روایت کرتے ہیں اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے سوا چوبیس صحابی اس کے راوی ہیں۔سلف کی ایک جماعت اس کے وجوب کی طرف گئی ہے اور اہلِ ظاہر اسی کے قائل ہیں۔اسے ابن منذر رحمہ اللہ نے ابوہریرہ،عمار رضی اللہ عنہما اور مالک رحمہ اللہ سے حکایت کیا ہے اور خطابی رحمہ اللہ نے حسن بصری رحمہ اللہ سے اور ابنِ حزم رحمہ اللہ نے صحابہ و تابعین کی ایک جماعت سے نقل کیا ہے۔جمہور حدیثِ سمرہ رضی اللہ عنہ کی وجہ سے اسے مستحب کہتے ہیں،مگر اس میں کلام ہے،کیونکہ حسن نے سمرہ رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا ہے۔[2] صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس لفظ کے ساتھ حدیث ہے کہ ((مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوئَ ثُمَّ أَتَی الْجُمُعَۃَ،الخ)) [3] [جس نے اچھی طرح وضو کیا،پھر جمعہ کے لیے آیا] اس کے سوا دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ یہ احادیث وجوب کے مندوب ہونے کی طرف جانے کے لیے قرینہ صارفہ ہیں۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر یہ احادیث اس حکم کی صارف ہیں،لیکن آپ کے اس جیسے ارشاد: ((حَقٌّ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ أَنْ یَّغْسِلَ فِيْ کُلِّ سَبْعَۃِ أَیَّامٍ یَوْماً،یَغْسِلُ فِیْہِ رَأْسَہُ وَجَسَدَہُ)) [4] [ہر مسلمان پر یہ حق ہے کہ ہر ہفتے ایک (یعنی جمعہ کے) دن غسل کرے،وہ اس دن اپنا سر اور جسم دھوئے] جو کہ صحیحین وغیرہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،اس کے صرف کی اہلیت نہیں رکھتیں،کیونکہ یہ وجوب میں صریح ہے،اور پوری بحث’’نیل الأوطار شرح منتقي الأخبار ‘‘میں ہے۔[5]
[1] سنن أبي داؤد،رقم الحدیث (۳۵۴) سنن النسائي،رقم الحدیث (۱۳۸۰) سنن الترمذي (۴۹۷) [2] ائمہ محدثین کے نزدیک سمرہ رضی اللہ عنہ سے حسن رحمہ اللہ کا سماع صحیح و ثابت ہے۔دیکھیں : جامع التحصیل للعلائي (ص:۱۶۵) [3] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۸۵۷) [4] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۸۵۶) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۸۴۹) [5] الدراري المضیۃ (۱/ ۵۹) نیز دیکھیں : نیل الأوطار (۱/ ۲۹۰)