کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 466
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم : ((اَلْمَائُ مِنَ الْمَائِ)) [1] (رواہ مسلم وأبوداؤد وابن خزیمۃ وابن حبان،وأصلہ في البخاري،ورواہ أحمد من حدیث رافع وعتبان،والطحاوي من حدیث أبي ہریرۃ،و ابن شاہین في ناسخہ من حدیث أنس) اس کا معنی یہ ہے کہ پانی کا استعمال اور پانی سے غسل کا وجوب پانی یعنی منی کے شہوت کے ساتھ نکلنے سے ہے،لہٰذا اس حدیث کے حکم سے غسل بغیر انزال واجب نہیں ہوگا۔کہتے ہیں کہ یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے منسوخ ہے۔انھوں نے کہا ہے: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم ((إِذَا جَلَسَ بَیْنَ شُعَبِھَا الْأَرْبَعِ،ثُمَّ جَھَدَھَا،فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ)) [2] (متفق علیہ) امام مسلم نے زیادہ کیا ہے: ((وَإِنْ لَّمْ یُنْزِلْ)) [3] [یعنی جب عورت کی چار شاخوں کے درمیان بیٹھے،پھر اسے تکان اور مشقت میں ڈال دے،تو غسل واجب ہوگیا،یعنی دونوں پر،اگر چہ وہ انزال نہ کرے] ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ یہ شروع اسلام میں ایک رخصت تھی،اس کے بعد اس سے نہی کردی گئی۔[4] ترمذی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ایسے ہی بہت سے صحابہ سے روایت کیا گیا ہے کہ یہ حکم ابتداے اسلام میں تھا،اس کے بعد منسوخ ہوگیا اور یہ حکم ہوا کہ جب آلہ تناسل عورت کی شرمگاہ کے اندر چلا گیا اورمرد و عورت کی شرمگاہیں آپس میں مل گئیں تو غسل واجب ہوگیا،انزال ہویا نہ ہو۔[5] امام نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ امت ہم بستری سے غسل کے وجوب پر متفق ہے،اگرچہ اس کے ساتھ انزال نہ ہوا ہو۔انزال سے وجوبِ غسل پر صحابہ کی ایک جماعت تھی،جن میں سے بعض نے بعد میں رجوع کرلیا اور دونوں حکموں کے بعد احادیثِ صحیحہ کی بنیاد پر شرم گاہوں کے ملنے سے غسل کے وجوب پر اجماع ہو گیا۔[6] انتھیٰ۔
[1] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۳۴۳) سنن أبي داود،رقم الحدیث (۲۱۷) صحیح ابن خزیمۃ (۱/۱۱۷) صحیح ابن حبان (۳/۴۴۳) مسند أحمد (۴/۳۴۲) شرح معاني الآثار للطحاوي (۱/۵۴) الناسخ والمنسوخ لابن شاھین (۸۱) [2] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۲۸۷) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۳۴۸) [3] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۳۴۸) [4] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۲۱۵) [5] سنن الترمذي،رقم الحدیث (۱۱۱) [6] شرح النووي علی صحیح مسلم (۴/ ۳۶)