کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 464
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم : ((إِذَا مَسَّ أَحَدُکُمْ ذَکَرَہٗ فَلْیَتَوَضَّأْ)) [1] (رواہ مالک وأحمد و أبو داؤد و الترمذي والنسائي وابن ماجہ والدارمي) [یعنی جب تم میں سے کوئی اپنے آلہ تناسل کو چھوئے تو وہ وضو کرے] کہتے ہیں کہ یہ حدیث،طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی حدیث سے منسوخ ہے: ((سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَنْ مَسِّ الرَّجُلِ ذَکَرَہٗ بَعْدَ مَا تَوَضَّأَ قَالَ: ھَلْ ھُوَ إِلَّا بُضْعَۃٌ مِنْہُ)) [2] (رواہ أبوداؤد والترمذي والنسائي وابن ماجہ نحوہ) [یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کرنے کے بعد کسی کے اپنا ذکر چھونے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اس (کے جسم) کا ایک ٹکڑا ہی ہے] بغوی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے،کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ طلق کے آنے کے بعد اسلام لائے اور انھوں نے روایت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص اپنے ذکر کوچھوئے اور اس کے اور اس کی شرم گاہ کے درمیان کوئی چیز نہ ہو تو چاہیے کہ وہ وضو کرے۔[3] انتھیٰ۔ (رواہ الشافعي والدارقطني) کاتبِ سطور کے والد رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ان میں نقض کو کپڑے کی آڑ کے بغیر چھونے پر محمول کرکے اور عدمِ نقض کو آڑ پر محمول کر کے دونوں کے درمیان تطبیق ممکن ہے،جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اس کی وضاحت کر ہی ہے۔انتھیٰ۔ عدۃ المنسوخ‘‘ میں فرمایا ہے کہ ایک قوم نے طلق رضی اللہ عنہ کی حدیث کے نسخ کا دعویٰ ان کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد نبوی کی تا سیس کے وقت آمد کی وجہ سے کیا ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مہاجر ہیں اور یہ قول محتمل ہے۔بعض محققین نے کہا ہے کہ اس میں اختلاف نہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اپنی سند اور متن کے لحاظ سے کئی وجوہ سے راجح ہے: پہلی: راوی کا موخر الاسلام ہونا۔
[1] الموطأ للإمام مالک (۱/۴۲) مسند أحمد (۲/ ۴۲۳) سنن أبي داؤد،رقم الحدیث (۱۸۱) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۸۲) سنن النسائي (۱۶۳) سنن ابن ماجہ (۴۷۹) سنن الدارمي (۱/۱۹۹) [2] سنن أبي داؤد،رقم الحدیث (۱۸۲) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۸۵) سنن النسائي (۱۶۵) [3] شرح السنۃ (۱/ ۳۴۲۔۳۴۳) سنن الدارقطني (۱/ ۱۴۷) مسند الشافعي (۳۴)