کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 455
بات کہ مجھے لکھوا دیں کا مطلب ہے کہ مجھے اس کی کتابت کی اجازت دیں اور مجھے اس پر قادر کریں۔ زید بن اسلم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا کہ رجم میں شک نہ کرو،کیونکہ یہ ثابت ہے۔بخدا ! میں نے ارادہ کیا کہ اسے مصحف میں لکھوں تو میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ تمھیں یاد نہیں کہ تم میرے پاس آتے تھے،جب میں اسے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھنے کی درخواست کر رہا تھا تو تم میرے سینے میں مارتے اور فرماتے کہ تم آیتِ رجم پڑھواتے ہو اور وہ جانوروں کے مانند بدکاری کرتے ہیں۔[1] ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس میں اس کی تلاوت کے اٹھالیے جانے کے سبب کی طرف اشارہ ہے اور وہ اختلاف ہے۔[2] تنبیہ: ابن حصار رحمہ اللہ نے اس قسم کے بارے میں کہا ہے کہ اگر کہیں کہ بدل کے بغیر نسخ کیسے ہو سکتا ہے،جبکہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَآ اَوْ مِثْلِھَا﴾ [البقرۃ: ۱۰۶] [جو بھی آیت ہم منسوخ کرتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں،اس سے بہتر یا اس جیسی اور لے آتے ہیں ] یہ اخبار ہے،اس میں وعدہ خلافی کا دخل نہیں،تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو کچھ اس وقت قرآن سے ثابت ہے اورمنسوخ نہیں ہوا ہے،وہی اس کا بدل ہے،جس کی تلاوت نسخ پذیر ہوچکی ہے۔تو جو کچھ اﷲ نے قرآن میں سے نسخ فرمایا ہے،جسے تم اس وقت نہیں جانتے،تو اس کا بدل اسے بنایا ہے جو ہمیں سکھا یا ہے اور جس کا لفظ ومعنی ہماری طرف متواتر ہواہے۔انتھیٰ کلام السیوطي في الإتقان۔[3] ہم نے اس کتاب میں ان تمام چیزوں کی،جسے مکثرین نے نسخ میں شمار کیا تھا،حقیقت حال
[1] الإتقان (۲/ ۷۰) [2] فتح الباري (۱۲/ ۱۴۳) [3] الإتقان (۲/ ۷۱)