کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 453
تنبیہ: قاضی ابوبکر رحمہ اللہ نے اس قسم کے انکار کی تائید میں ایک قوم سے حکایت کیا ہے کہ چونکہ ان کے بارے میں وارد اخبار آحاد ہیں اور انزالِ قرآن اور اس کے نسخ کے بارے میں اخبارِ آحاد سے یقین کرنا جائز نہیں ہے،کیونکہ اس میں حجت نہیں ہے۔ ابوبکر رازی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ رسم وتلاوت کا نسخ اس طریقے سے ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ انھیں فراموش کرا دے اور لوگوں کے خیال سے اٹھا لے اور اس کی تلاوت اور مصحف میں اس کی کتابت سے اعراض کا حکم دے اور وہ زمانے سے مٹ جائے،جیسے کہ تمام پرانی کتابیں ہیں،جن کا اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے اپنے اس ارشاد میں ذکر کیا ہے: ﴿اِِنَّ ھٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی* صُحُفِ اِِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی﴾ [الأعلیٰ: ۱۸،۱۹] [بے شک یقینا یہ بات پہلے صحیفوں میں ہے،ابراہیم اور موسیٰ علیہما السلام کے صحیفوں میں ] اس وقت ان میں سے کسی کو پہچانا نہیں جاتا۔نیز یہ دوحالت سے خالی نہیں ہے،یا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھی اور جب آپ نے وفات پائی تو قرآن میں متلو نہیں تھی،یا آپ کی وفات ہوئی تو متلو اور رسم کے ساتھ موجود تھی،پھر اﷲ تعالیٰ نے اسے لوگوں کو فراموش کرا دیا اور اسے ان کے ذہنوں سے اٹھا دیا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قرآن سے کسی چیز کا نسخ جائز نہیں ہے۔[1] انتھیٰ۔ ’’برہان‘‘میں کہا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ لوگ کہیں گے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کتاب اﷲ میں اضافہ کردیا تو یقینا میں اس میں رجم کی آیت لکھ دیتا،تو ظاہر ہے کہ اس کی کتابت جائز ہے،مگر لوگوں کی بات اس سے روک بن گئی۔کبھی کوئی چیز بذات خود جائز ہوتی ہے،لیکن بیرونی بندش پیدا ہوجاتی ہے اور جب جائز ہے تو ضروری ہے کہ ثابت ہو،کیونکہ مکتوب کی شان یہی ہے۔کبھی کہتے ہیں کہ اگر اس کی تلاوت برقرار ہوتی،تو عمر رضی اللہ عنہ مبادرت کرتے اور لوگوں کی بات کی پروا نہ کرتے،کیونکہ لوگوں کی بات ممانعت کی سزاوار نہیں ہے اور بالجملہ یہ تلازم مشکل ہے۔شاید کہ ان کا اعتقاد یہ تھا کہ یہ خبر واحد ہے اور قرآن خبر واحد سے ثابت نہیں ہوتا ہے،اگرچہ حکم ثابت ہو۔یہیں سے ابن ظفر رحمہ اللہ نے اس قسم کو اس میں شمار کرنے سے انکار کیا ہے،جس کی تلاوت منسوخ ہے۔
[1] الإتقان (۲/ ۶۹)