کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 449
نقل وتاریخ ہی معتمدہے،نہ کہ رائے واجتہاد۔لوگ اس باب میں دو متضاد راہوں کے درمیان ہیں،بعض کہتے ہیں کہ نسخ میں عدول کی اخبارِ آحاد مقبول نہیں ہیں اور بعض متساہل اس میں ایک مفسر یا مجتہد کی بات پر اکتفا کرتے ہیں،جب کہ صحیح بات ان دونوں آرا کے خلاف ہے۔انتھیٰ۔ تلاوت کے نسخ اور حکم کے بقا کی حکمت: صاحبِ فنون نے فرمایا ہے کہ اس کی حکمت اس امت کی مقدارِ اطاعت کو ظاہر کرنا ہے کہ وہ بطور ظن،یقین کی تفصیل طلب کیے بغیر،ادنا چیز کی وجہ سے بذلِ نفوس میں مسارعت کرتے ہیں،جیسے خلیل علیہ السلام نے اپنے فرزند کو ذبح کرنے میں خواب کی وجہ سے سرعت فرمائی،جو وحی کا ادنا طریقہ ہے اور اس قسم کی مثالیں بہت ہیں۔ 1۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سورۃ الاحزاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو سو آیات پر مشتمل تھی اور عثمان کی کتابت کے وقت اتنی ہی مقدار رہ گئی جو اب ہے۔[1] 2۔زربن حبیش سے مروی ہے کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سورۃ الاحزاب کو کتنی شمار کرتے ہو؟ تو فرمایا کہ بہتّر یا تہتّر آیات،فرمایا کہ وہ بقرہ کے برابر تھی اور ہم اس میں رجم کی آیت پڑھتے تھے۔[2] 3۔حمیدہ بنت ابی یونس رحمہ اللہ سے مروی ہے،انھوں نے کہا کہ میرے والد اسّی(۸۰) سال کے تھے،انھوں نے میرے سامنے مصحفِ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں ﴿اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِی﴾ اﷲ کے ارشاد:’’وَعَلَی الصُّفُوْفِ الْأُوْلیٰ‘‘ تک پڑھا اور یہ حضرت عثمان کے تغییرِ مصاحف سے پہلے تھا۔[3] 4۔ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی جاتی تھی تو ہم آتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سکھاتے تھے۔ایک روز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو کہا کہ اﷲ فرماتا ہے: ((إِنَّا أَنْزَلْنَا الْمَالَ لِإِقَامِ الصَّلَاۃِ وَإِیْتَائِ الزَّکَاۃِ،وَلَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِیًا مِّنْ
[1] فضائل القرآن لأبي عبید (۵۷۹) اس کی سند میں’’عبداللّٰه بن لہیعۃ‘‘ ضعیف ہے۔ [2] فضائل القرآن (۵۸۰) [3] فضائل القرآن (۵۸۹)