کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 442
صورت سے کوئی تعلق ہے،جیسے اﷲ کا ارشاد ہے: ﴿وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْن﴾ [البقرۃ: ۳] [اور اس میں سے جو ہم نے انھیں دیاخرچ کرتے ہیں ] ایسے ہی اﷲ کا ارشاد ہے: ﴿اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْن﴾ [التین: ۸] [کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ] اسے آیتِ سیف سے منسوخ قرار دیتے ہیں،حالانکہ ایسا نہیں ہے،کیونکہ اﷲ تعالیٰ ہمیشہ ابدالاباد احکم الحاکمین ہے،یہ کلام نسخ پذیر نہیں ہے،اگر چہ اس کا معنی تفویض کا حکم اور ترکِ معاقبت ہو۔اسی طرح بقرہ میں اﷲتعالیٰ کا ارشاد: ﴿قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا﴾ ہے وعلی ہذا القیاس۔ دوسری: ایک قسم وہ ہے جو مخصوص کی جنس سے ہے،منسوخ سے نہیں۔ابن العربی رحمہ اللہ نے اس کو بڑی عمدگی سے تحریر کیا ہے،جیسے اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اِِنَّ الْاِِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ* اِِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ [العصر: ۲،۳] [کہ بے شک ہر انسان یقینا گھاٹے میں ہے،سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے] ﴿وَالشُّعَرَآئُ یَتَّبِعُھُمُ الْغَاؤن﴾ [الشعراء: ۲۲۴] [اور شاعر لوگ،ان کے پیچھے تو گمراہ لوگ چلتے ہیں ] ﴿اِِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ [العصر: ۳] [سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے] اور ﴿فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہ﴾ [البقرۃ: ۱۰۹] [سو تم معاف کرو اور درگزر کرو،یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے] وغیرہ آیتیں ہیں،جو استثنا یا غایت کے ذریعے مخصوص ہیں اور انھیں منسوخ میں داخل کرنا غلط ہے۔اسی سلسلے میں اﷲ کا یہ ارشاد ہے: ﴿وَ لَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ﴾ [البقرۃ: ۲۲۱] [اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو،یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں ]