کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 386
پہلی آیت: ﴿اَلزَّانِیْ لاَ یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً اَوْ مُشْرِکَۃً وَّالزَّانِیَۃُ لاَ یَنْکِحُھَا اِِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [النور: ۳] [زانی نکاح نہیں کرتا مگر کسی زانی عورت سے،یا کسی مشرک عورت سے اور زانی عورت،اس سے کوئی نکاح نہیں کرتا مگر کوئی زانی یا مشرک اور یہ کام ایمان والوں پر حرام کر دیا گیا ہے] کہتے ہیں کہ یہ آیت اﷲ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿وَاَنکِحُوْا الْاَیَامٰی مِنْکُم﴾ [النور: ۳۲] [اور تم نکاح کر دو اپنے میں سے بے نکاح مردوں اور عورتوں کا] سے منسوخ ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ فرمانِ باری تعالیٰ: ﴿فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ﴾ [النساء: ۳] [عورتوں میں سے جو تمھیں پسند ہو ان سے نکاح کر لو] سے منسوخ ہے۔سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے بالاجماع اسے منسوخ کہا ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے’’الفوزالکبیر‘‘ میں فرمایا ہے کہ احمد رحمہ اللہ ظاہر آیت کے موافق ہیں اور اس کا معنی ان کے سوا دوسروں کے نزدیک یہ ہے کہ مرتکبِ کبیرہ زانیہ ہی کا کفو ہے یا زانیہ کو اختیار کرنا مستحب نہیں ہے اور ﴿حُرِّمَ ذٰلِک﴾ سے زنا اور شرک کی طرف اشارہ ہے،لہٰذا منسوخ نہیں ہے۔اﷲ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿وَاَنکِحُوْا الْاَیَامٰی﴾ عام ہے،جو خاص کا ناسخ نہیں ہوسکتا۔[1] انتھیٰ۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے’’فتح القدیر‘‘ میں فرمایا ہے کہ اہلِ علم نے اس آیت کے معنی میں چند اقوال پر اختلاف کیا ہے: 1۔اس سے مقصود زنا اور اہلِ زنا کی برائی کرنا ہے اور یہ کہ زنا مومنوں پر حرام ہے۔اس کا معنی یہ ہے کہ زانی زانیہ ہی سے زنا کرتا ہے اور اس کے برعکس ہوتا ہے،لہٰذا نکاح اس میں وطی کے معنی میں ہے،عقد کے معنی میں نہیں۔آیت میں شرک کی زیادتی معاصی میں زنا وغیرہ سے زیادہ عام ہونے کی وجہ سے ہے۔زجاج رحمہ اللہ نے اس توجیہ کو رد کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کتاب اﷲ میں نکاح تزویج ہی کے معنی میں آیا ہے اور اس رد پر یہ رد کیا گیا ہے کہ نکاح کتاب اﷲ میں وطی کے معنی میں ثابت ہے اور اسی سے اﷲتعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ﴾ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ وطی کے معنی میں ہے اور آیتِ مذکورہ میں وطی کے معنی کے
[1] الفوز الکبیر (ص: ۵۸)