کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 360
ابو الشیخ،سدی رحمہ اللہ سے روایت لائے ہیں کہ یہ آیت قتال کے حکم والی آیت [التوبۃ: ۵] سے منسوخ ہے۔ آٹھویں آیت: ﴿وَ مَا جَعَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا﴾ [الأنعام: ۱۰۷] [اور ہم نے تجھے ان پر محافظ نہیں بنایا] کہتے ہیں کہ یہ آیت،آیتِ سیف سے منسوخ ہے۔ نویں آیت: ﴿لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًام بِغَیْرِ عِلْمٍ﴾[الأنعام: ۱۰۸] [اور انھیں گالی نہ دو جنھیں یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں،پس وہ زیادتی کرتے ہوئے کچھ جانے بغیر اللہ کو گالی دیں گے] کہتے ہیں کہ یہ آیت،آیتِ سیف سے منسوخ ہے۔’’فتح القدیر‘‘ میں فرمایا ہے کہ جمہور اس طرف گئے ہیں کہ یہ آیت محکم،ثابت اور غیر منسوخ ہے۔سدِ ذرائع اور مشابہت کی راہ کاٹنے میں بنیادی ضابطہ ہے اور اس میں یہ دلیل ہے کہ جب سچائی کا داعی اور باطل کی ممانعت کرنے والا اس دعوت اور ممانعت سے ڈرے کہ یہ اس سے زیادہ سخت چیز کی حرمت کو پامال کرنے،سچائی کی مخالفت اور باطل میں پڑجانے کا سبب بن جائے گی تو اسے اس کو ترک کرنا اولیٰ بلکہ واجب ہے۔یہ آیت کتنی مفید اور اﷲ کے دلائل کے حاملین اور اس کے بیان کے درپے افراد کے لیے اس میں کتنا بڑا فائدہ ہے کہ جب قوم میں بہرے اور گونگے لوگ ہوں تو ان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چھوڑ دیں،کیونکہ اسے منکرات کی خبر دینا اس کے سچائی اور صداقت پرستوں سے بغض اور اﷲ پر جرات کی وجہ سے اس میں اثر انداز نہیں ہوگا مگر صرف تلوار ہی،کیونکہ تلوار ہی شریعت مطہرہ کے اس معاند کے لیے حاکم عدل ہے،جو دین کی مخالفت اور اہلِ دین پر جرات کو اپنی عادت بنائے ہوئے ہے،جیسے اہلِ بدعت میں دیکھا جاتا ہے کہ جب انھیں سچائی کی دعوت دی جائے تو اور زیادہ باطل میں پڑجاتے ہیں اور جب سنت کی راہ دکھائی جائے تو اس کا مقابلہ اپنی بدعتوں سے کرتے ہیں۔تو یہ دین سے کھلواڑ اور شریعت کی توہین کرتے ہیں اور ملحدوں سے بدتر ہیں۔[1] انتھیٰ کلامہ۔
[1] فتح القدیر (۲/ ۲۱۲)