کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 358
پہلی آیت: ﴿قُلْ اِنِّیْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ﴾ [الأنعام: ۱۵] [کہہ دے اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو بے شک میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں ] کہتے ہیں کہ یہ آیت اس آیت: ﴿لِیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّر﴾ [الفتح: ۲] [تاکہ اللہ تیرے لیے بخش دے تیرا کوئی گناہ جو پہلے ہوا ہو اور جو پیچھے ہوا ہو] سے منسوخ ہے،یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابتداے اسلام میں معصیت اور عذاب سے ڈرتے تھے۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذنوب متقدمہ و متاخر ہ کی مغفرت کی خبر دے کر مامون کر دیا گیا،پس حکمِ خوف منسوخ ہوگیا۔اہلِ علم کی ایک جماعت کے نزدیک یہاں خوف،علم کے معنی میں ہے،یعنی میں جانتا ہوں کہ اگر اس کی معصیت کروں گا تو مجھے عذاب ہوگا،اس تقدیر پر یہ آیت محکم ہے اور یہی درست ہے۔ دوسری آیت: ﴿قُلْ لَّسْتُ عَلَیْکُمْ بِوَکِیْل﴾ [الأنعام: ۶۶] [کہہ میں ہرگز تم پر کوئی نگہبان نہیں ] کہتے ہیں کہ یہ آیت،آیتِ سیف سے منسوخ ہے،یہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے۔یہ بھی کہتے ہیں کہ منسوخ نہیں،کیونکہ ان کا ایمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وسعت میں نہیں ہے۔[1] تیسری آیت: ﴿وَ مَا عَلَی الَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِھِمْ مِّنْ شَیْئٍ﴾ [الأنعام: ۶۹] [اور ان لوگوں کے ذمے جو بچتے ہیں،ان کے حساب میں سے کوئی چیز نہیں ] کہتے ہیں کہ یہ آیت اس آیت: ﴿اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُ بِھَا وَ یُسْتَھْزَاُ بِھَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہ﴾ [النساء: ۱۴۰] [کہ جب تم اللہ کی آیات کو سنو کہ ان کے ساتھ کفر کیا جاتا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو ان کے ساتھ مت بیٹھو،یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور بات میں مشغول ہو جائیں ] سے منسوخ ہے،یعنی پہلی آیت میں اضطرار کے وقت کافروں کی مجالست کی رخصت تھی اور اس کے بعد اس دوسری آیت کے نزول سے وہ نسخ پذیر ہوگئی۔
[1] فتح القدیر (۲/ ۱۸۰)