کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 356
اس صورت میں مذکورہ بالا آیت منسوخ نہیں ہوگی۔امام شوکانی رحمہ اللہ نے’’فتح القدیر‘‘ میں اس مقام کی تفصیل یوں کی ہے کہ ﴿اٰخَرٰنِ﴾ معطوف ہے ﴿اثْنٰنِ﴾ پر اور ﴿مِنْ غَیْرِکُم﴾ اس کی صفت ہے،یعنی وہ دونوں اجنبیوں میں سے ہوں۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ ﴿مِنْکُم﴾ میں ضمیر مسلمین کے لیے ہے اور ﴿غَیْرِکُم﴾ میں کافروں کے لیے اور یہی سیاق آیت کے زیادہ مناسب ہے اور ابوموسیٰ اشعری اور عبداﷲبن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہ اسی کے قائل ہیں۔ لہٰذا آیت میں دورانِ سفر خصوصاً وصیتوں میں مسلمانوں پر اہلِ ذمہ کی شہادت کے جواز کی دلیل ہوگی،جیسا کہ نظم قرآنی کا مفاد ہے اور سببِ نزول اس کا شاہد ہے۔تو جب موصی کے ہمراہ مسلمانوں میں سے کوئی نہ ہو،جو اس کی وصیت پر شاہد ہو سکے تو دو شخص اہلِ کفر میں سے آنے کے بعد بہ حلف گواہی دیں گے اور ان دونوں کی شہاد ت پر اس صورت میں فیصلہ کیاجائے گا اور اس کے بعد اگر ان کا کذب ظاہر ہو تو موصی کے اولیا میں سے دو شخص حلف لیں گے اور وہ دونوں اپنی جنایت کی بنا پر غریم ہوں گے۔یہ ہے مذکورہ لوگوں کے نزدیک آیت کا معنی اور اسی کے قائل ہیں سعید بن مسیب،یحییٰ بن یعمر،سعید بن جبیر،ابومجلز،شریح،عبیدہ سلمانی،ابن سیرین،مجاہد،قتادہ،سدی،ثوری،ابو عبید اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہم۔پہلے معنی،یعنی ﴿مِنْکُم﴾ کی ضمیر کی تفسیر قرابت یا عشیرہ سے اور ﴿غَیْرِکُم﴾ کی تفسیر اجانب سے،اس کی طرف زہری،حسن،عکرمہ،امام مالک،امام شافعی اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ گئے ہیں اور کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا آیت منسوخ ہے اور ان کا استدلال اﷲ کے ارشاد: ﴿مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّھَدَآئِ﴾ [البقرۃ: ۲۸۲] [جنھیں تم گواہوں میں سے پسند کرتے ہو] اوراس کے ارشاد: ﴿وَّ اَشْھِدُوْا ذَوَی عَدْلٍ مِّنْکُم﴾ [الطلاق: ۲] [دو صاحبِ عدل آدمی گواہ بنا لو] سے ہے اور کفار پسندیدہ ہیں اور نہ عادل۔جمہور ان کے مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ آیت محکم ہے اور یہی درست ہے،کیونکہ نسخ پر دلالت کرنے کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں ہے،لیکن پہلی دو آیات اشخاص،ازمان اور احوال کے بارے میں عام ہیں،جب کہ یہ آیت: ﴿ضَرْبًا فِی الْاَرْض﴾ یعنی سفر اور وصیت اور مسلم شاہد کے نہ ہونے کی حالت کے ساتھ خاص ہے اور عام و خاص میں تعارض نہیں ہوتا ہے۔[1] انتھیٰ۔
[1] فتح القدیر (۲/ ۱۲۲۔۱۲۳)