کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 342
[اور جن لوگوں کو تمھارے عہد و پیمان نے باندھ رکھا ہے انھیں ان کا حصہ دو] کہتے ہیں کہ یہ آیت اس آیت: ﴿وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ﴾ [الأنفال: ۷۵] [اور رشتے دار اللہ کی کتاب میں ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں ] سے منسوخ ہے،یعنی ابتداے اسلام میں دوشخص عقدِ موالات اور عہد کرتے تھے کہ جس کی بھی پہلے موت ہوگی،دوسرا اس کا وارث ہوگا تو آیتِ میراث یا آیتِ مذکورہ نے اس کا نسخ کردیا۔ ’’فتح القدیر‘‘ میں آ یتِ کریمہ: ﴿وَ لِکُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ﴾ [النساء: ۳۳] [اور ہم نے اس (ترکے) میں جو والدین اور زیادہ قرابت والے چھوڑ جائیں،ہر ایک کے وارث مقرر کر دیے ہیں ] کے تحت فرمایا ہے کہ ہر انسان کے ہم نے وارث بنادیے ہیں،تاکہ وہ اس کی میراث کے مالک اور وارث ہوں۔کہتے ہیں کہ یہ آیت اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد: ﴿وَ الَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُم﴾ [النساء: ۳۳] [اور جن لوگوں کو تمھارے عہد و پیمان نے باندھ رکھا ہے] سے منسوخ ہے اور اس کے برعکس بھی کہتے ہیں،جیسا کہ ابن جریر رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔جمہور اس طرف گئے ہیں کہ اس کا ناسخ،اﷲ تعالیٰ کا یہ ارشاد: ﴿وَ اُولُوا الْاَرْحَام،الخ﴾ [الأنفال: ۷۵] [اور رشتے دار] ہے،یعنی ہم نے ہر ایک کے عصبہ بنائے ہیں کہ جو کچھ فرائض سے باقی ہو،اس کا وارث ہو۔[1] انتھیٰ۔لیکن’’الفوزالکبیر‘‘ میں لکھا ہے کہ آیت کا ظاہر یہ ہے کہ میراث قریبی رشتے داروں کے لیے ہے اور بر و صلہ مولی الموالاۃ[2] کے لیے اور یہ نسخ نہیں ہے۔[3] انتھیٰ۔ تیرھویں آیت: ﴿وَ لَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَآئُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُ وا اللّٰہَ وَ اسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا﴾ [النساء: ۶۴] [اور اگر واقعی یہ لوگ،جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا،تیرے پاس آتے،پھر اللہ سے بخشش مانگتے اور رسول ان کے لیے بخشش مانگتا تو اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا،نہایت مہربان پاتے]
[1] فتح القدیر (۱/ ۷۳۷) [2] ایک شخص کسی کے ہاتھ پر اسلام قبول کرے اور وہ دونوں عہد کریں کہ وہ باہم وارث بنیں گے اور دیت وغیرہ میں ذمے دار ہیں،تو اسے’’مولیٰ الموالاۃ‘‘ کہتے ہیں۔ [3] الفوز الکبیر (ص: ۵۵)