کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 341
تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُم﴾ [النساء: ۲۹] [اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے نہ کھاؤ،مگر یہ کہ تمھاری آپس کی رضا مندی سے تجارت کی کوئی صورت ہو] کہتے ہیں کہ یہ آیت اس آیت: ﴿لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ وَّلاَ عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلاَ عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ﴾ [النور: ۶۱] [نہ اندھے پر کوئی حرج ہے اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ بیمار پر کوئی حرج ہے] سے منسوخ ہے،یعنی پہلی آیت میں تجارت کے ذریعے کے سوا ایک دوسرے کا مال کھانے کی ممانعت ہے۔اسلام سے پہلے اور ابتداے اسلام میں سفر میں رفقا کا کھانا آمیز کرلیتے تھے اور اسے سب مل کر کھاتے تھے،لیکن جب یہ آیت اتری تو انھوں نے اندھے،لنگڑے اور بیمار کے ساتھ کھانا کھانے میں الجھن محسوس کی۔اس پر یہ آیت اتری اور اس میں اس الجھن کو دور کر دیا۔ابن جریر رحمہ اللہ نے عکرمہ اور حسن رحمہما اللہ سے مذکورہ آیت میں روایت کیا ہے کہ ایک شخص کو الجھن اور دشواری ہوئی کہ اس آیت کے اترنے کے بعد کسی نزدیکی کے ساتھ کھانا کھائے تو اس کا حکم سورۃ النور کی آیت: ﴿وَلاَ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَنْ تَاْکُلُوْا مِنْم بُیُوتِکُمْ﴾ [النور: ۶۱] [اور نہ خود تم پر کہ تم اپنے گھروں سے کھاؤ] سے منسوخ ہوگیا۔[1] اکثراہلِ علم کے نزدیک یہ آیت محکم ہے،منسوخ نہیں اور اس کا حکم برقرار ہے۔باطل ذریعے سے کھانا ممنوع ہے اور وہ ایسے کھانا ہے جس کے ساتھ شریعت وارد نہ ہوئی ہو اور جو شریعت میں وارد ہے،وہ باطل نہیں ہے،بلکہ درست ہے،لہٰذا آیتِ مذکورہ میں داخل نہیں ہوگا۔اسی لیے امام سیوطی رحمہ اللہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مذکورہ آیت کے بارے میں صحیح سندسے لائے ہیں کہ انھوں نے فرمایا کہ’’إنھا محکمۃ ما نسخت،ولا تنسخ إلٰي یوم القیٰمۃ‘‘[2] [بلاشبہہ وہ محکم ہے منسوخ نہیں ہوئی اور نہ قیامت تک منسوخ ہو گی] نیز باطل میں وہ سودے شامل ہیں،جن سے شریعت نے منع کیا ہے۔ بارھویں آیت: ﴿وَ الَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ فَاٰتُوْھُمْ نَصِیْبَھُمْ﴾ [النساء: ۳۳]
[1] تفسیر الطبري (۴/ ۳۳) [2] الدر المنثور (۲/ ۴۹۴)