کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 340
صحیح مسلم میں سبرہ بن معبد جہنی رضی اللہ عنہ کے واسطے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا: ((یَا أَیُّھَا النَّاسُ! قَدْ کُنْتُ أَذِنْتُ لَکُمْ فِيْ الْاِسْتِمْتَاعِ مِنَ النَّسَائِ،وَ إِنَّ اللّٰہَ قَدْ حَرَّمَ ذَالِکَ إِلٰي یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ فَمَنْ کَانَ عِنْدَہٗ مِنْھُنَّ شَیْیٌٔ فَلْیُخِلِّ سَبِیْلَھَا،وَلَا تَاخُذُوْا مِمَّا آتَیْتُمُوْھُنَّ شَیْئاً)) [1] [لوگو! میں نے تمھیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دے رکھی تھی،اب اللہ نے قیامت تک کے لیے اسے حرام فرما دیا ہے،لہٰذا جس کے پاس کوئی ایسی عورت ہو تو وہ اسے آزاد کر دے اور تم نے جو کچھ انھیں دیا ہے،اس میں سے کچھ بھی (واپس) نہ لو] صحیح مسلم کی ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ یہ واقعہ حجۃ الوداع کے موقع کا تھا،تو یہ احادیث آیت مذکورہ کی ناسخ ہیں۔سعید بن جبیر نے فرمایا ہے کہ اس کی ناسخ میراث کی آیت ہے،کیونکہ’’متعہ‘‘ میں میراث نہیں ہے۔قاسم بن محمد رحمہ اللہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ متعہ کا نسخ قرآن میں ہے اور وہ اﷲ تعالیٰ کا یہ ارشاد: ﴿وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حَافِظُوْنَ،الخ﴾ ہے اور جو عورت متعہ والی ہے،وہ بیویوں سے ہے اور نہ لونڈیوں میں سے،کیونکہ زوجہ کی شان یہ ہے کہ وہ خود بھی وارث ہو اور دوسرے اس کے وارث ہوں،جب کہ متعہ والی عورت ایسی نہیں ہے۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے متعہ کے جواز کی روایت ہے۔نیز اس کے ناسخ کے پہنچنے پر اس سے رجوع کرنے کی بھی روایت ہے۔روافض کی ایک جماعت اس کے جواز کی قائل ہے اور ان کے اقوال پر اعتماد نہیں۔بعض متاخرین اس مسئلے پر تکثیرِ کلام اور اس کے مجوز ین کی تقویت کی وجہ سے اپنی جان کو تھکان میں ڈالے ہوئے ہیں،یہ اس کے بطلان کی جگہ نہیں ہے۔منتقیٰ کی شرح میں جواز پر استدلال کرنے والے کے شک کو باطل کرنے کے لیے میں نے طویل بحث کی ہے۔[2] انتھیٰ کلام الإمام الشوکاني رحمہ اللّٰه گیارھویں آیت: ﴿یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ
[1] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۴۰۶) [2] فتح القدیر (۱/ ۷۲۱)