کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 337
میں خاص ہے۔تثنیہ کا صیغہ لانے کی وجہ دو صفت یعنی محصن اور غیر محصن ہے تو عورت کی سزا’’حبس‘‘ ہے اور رجال کی سزا’’اذیٰ ‘‘ ہے۔یہ نحاس رحمہ اللہ کا مختار مذہب ہے اور اسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔امام قرطبی رحمہ اللہ اسے مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ سے لائے ہیں اور اسے مستحسن کہا ہے۔
سدی اور قتادہ رحمہما اللہ وغیرہ نے کہا ہے کہ آیت اولیٰ شادی شدہ عورتوں کے بارے میں ہے اوراس میں رجال بھی داخل ہیں اور دوسری آیت غیر شادی شدہ مرد و عورت کے لیے ہے۔طبرانی رحمہ اللہ نے اسے ترجیح دی ہے اور نحاس رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔’’اذیٰ‘‘ کی تفسیر میں اختلاف کیا گیا ہے۔کچھ نے ڈانٹ،پھٹکار اور عار دلانا کیا ہے اور کچھ نے بغیر عار دلائے برائی کرنا اور بعض نے زبان سے بے عزت کرنا اور جوتے مارنا کیا ہے۔ایک قوم نے کہا ہے کہ’’حبس‘‘ کے مانند ہی’’اذیٰ‘‘ بھی منسوخ ہے اور بعض کہتے ہیں کہ منسوخ نہیں ہے،جیسا کہ’’حبس‘‘ کے بارے میں گزرا۔[1]
چھٹی آیت:
﴿اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓئَ بِجَھَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ﴾ [النساء: ۱۷]
[توبہ (جس کا قبول کرنا) اللہ کے ذمے (ہے) صرف ان لوگوں کی ہے جو جہالت سے برائی کرتے ہیں،پھر جلد ہی توبہ کر لیتے ہیں ]
کہتے ہیں کہ یہ آیت اس آیتِ کریمہ ﴿وَ لَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ حَتّٰی۔ٓ اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْئٰنَ وَ لَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَ ھُمْ کُفَّارٌ﴾ [النساء: ۱۸] [اور توبہ ان لوگوں کی نہیں جو برے کام کیے جاتے ہیں،یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آ جاتی ہے تو وہ کہتا ہے بے شک میں نے اب توبہ کر لی اور نہ ان کی ہے جو اس حال میں مرتے ہیں کہ وہ کافر ہوتے ہیں ] سے منسوخ ہے۔یعنی پہلی آیت میں فرمایا ہے کہ اس شخص کی توبہ کی پذیرائی ہے جو بغیر تاخیر و تسویف کے جلد تائب ہوجائے اور دوسری آیت میں فرمایا ہے کہ جس نے موت سے پہلے اور موت کے وقت توبہ کی،اس کی توبہ کی پذیرائی نہیں۔اس کے بعد یہ حکم اس آیت: ﴿اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ ھُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ﴾ [التوبۃ: ۱۰۴] [کیا انھوں نے نہیں جانا کہ بے شک
[1] فتح القدیر (۱/ ۷۰۳)