کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 336
مکان کے اندر تاموت حبس تھا اور جب یہ آیت اتری تو حبس کا حکم منسوخ ہوگیا اور اس کا عوض (بدلہ) غیر شادی شدہ ہو تو کوڑے اور اگر شادی شدہ ہو تو رجم قرار دیاگیا ہے۔بعض نے کہا کہ سنت سے منسوخ ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے:
((خُذُوْا عَنِّيْ فَقَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِیْلاً،اَلْبِکْرُ بِالْبِکْرِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَتَغْرِیْبُ عَامٍ،وَالثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَ الرَّجْمُ)) [1]
[مجھ سے (اللہ کا حکم) لے لو۔اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایک راستہ مقرر کر دیا ہے،کنوارے لڑکے اور کنواری لڑکی کی سزا سو کوڑے مارنا اور ایک سال کے لیے جلا وطنی کرنا اور شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت کی سزا سو کوڑے مارنا اور سنگسار کرنا ہے]
تو مکان میں حبس و امساک کا حکم اس سنت سے منسوخ ہوگیا۔’’فتح القدیر‘‘ میں فرمایا ہے کہ خانہ اسیری ابتداے اسلام میں تھی،پھر مذکورہ آیت سے منسوخ ہوگئی۔[2] کچھ اہلِ علم اس بات کی طرف گئے ہیں کہ حبس و ایذا کا حکم کوڑوں کے ساتھ ساتھ باقی ہے،کیونکہ دونوں کے درمیان تعارض نہیں،بلکہ تطبیق ممکن ہے۔سبیل سے مقصود وہی ہے جو سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث میں’’خُذُوْا عَنِّيْ۔۔۔‘‘ آیا ہے۔
پانچویں آیت:
﴿وَ الَّذٰنِ یَاْتِیٰنِھَا مِنْکُمْ فَاٰذُوْھُمَا﴾ [النساء: ۱۶]
[اور دونوں جو تم میں سے اس کا ارتکاب کریں سو ان دونوں کو ایذا دو]
کہتے ہیں کہ یہ آیت سورۃالنور کی آیت: ﴿اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ﴾ سے منسوخ ہے۔حاصل یہ کہ ابتداے اسلام میں ایذا اور سرزنش دونوں کا حکم تھا،اس کے بعد غیر شادی شدہ کے لیے جلد اور شادی شدہ کے لیے رجم سے منسوخ ہوگیا۔بعض نے کہا ہے کہ اس کانزول لواطت کے بارے میں ہواہے،اس کے بعد دونوں کے قتل سے منسوخ ہوگیا اور قتل کی کیفیت میں فقہا کا اختلاف ہے۔’’فتح القدیر‘‘ میں فرمایا ہے کہ آیت یعنی ﴿اَلّٰتِیْ﴾ عورتوں کے بارے میں خاص ہے محصنات ہوں یا غیر محصنات اور دوسری رجال کے بارے
[1] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۲۹۰)
[2] فتح القدیر (۱/ ۷۰۶)