کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 334
کہا ہے کہ غیر وارث قرابت دار کو اتنی مقدار میں کچھ دے دینا واجب ہے،جس سے ورثا خوش ہوں اور یہ امر کا اصلی معنی ہے۔تو بغیر قرینے کے ندب کی طرف نہ جائیں۔اللہ کے ارشاد میں ﴿مِنْہُ﴾ کی ضمیر ایسے مقسوم مال کی طرف لوٹ رہی ہے،جس پر تقسیم کے ساتھ دلالت کی گئی ہو۔یہ بھی کہتے ہیں کہ متروکہ مال کی طرف لوٹتی ہے۔’’قول معروف‘‘ سے مراد ایسی اچھی بات ہے جس میں اس شخص پر،جسے اس تقسیم سے دیا جائے،منت اور اذیت نہ ہو۔[1] انتھیٰ۔ دوسری آیت: ﴿وَ لْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَکُوْا مِنْ خَلْفِھِمْ ذُرِّیَّۃً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَیْھِمْ فَلْیَتَّقُوا اللّٰہَ وَ لْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا﴾ [النساء: ۹] [اور لازم ہے کہ وہ لوگ ڈریں جو اپنے پیچھے اگر کمزور اولاد چھوڑتے تو ان کے متعلق ڈرتے،پس لازم ہے کہ وہ اللہ سے ڈریں اور سیدھی بات کہیں ] کہتے ہیں کہ یہ آیت اس آیت: ﴿فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا فَاَصْلَحَ بَیْنَھُمْ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ﴾ [البقرۃ: ۱۸۲] [پھر جو شخص کسی وصیت کرنے والے سے کسی قسم کی طرف داری یا گناہ سے ڈرے،پس ان کے درمیان اصلاح کر دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ] سے منسوخ ہے۔ابن جریر،ابن منذر،ابن ابی حاتم اور بیہقی رحمہ اللہ علیہم نے سنن میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت اس شخص کے بارے میں ہے،جو کسی شخص کی موت کے وقت حاضر ہو اور اسے ورثا کے بارے میں نقصان دہ وصیت کرتے ہوئے سنے تو اﷲ تعالیٰ نے اسے حکم دیا ہے کہ خدا سے ڈرے اور اس وصیت کو موافق اور درست بنائے اور اس کے ورثا کاپاسبان رہے،جیسے اپنے ورثا کے بارے میں ان کی بربادی کے وقت جو کچھ پسند کرتا ہے۔[2] یہ تفسیر چند طرق سے مروی ہے،لہٰذا بیشتر علما آیتِ مذکورہ کو منسوخ نہیں شمار کرتے اور یہی درست ہے۔ تیسری آیت: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا﴾[النساء: ۱۰]
[1] فتح القدیر (۱/ ۶۹۱) [2] تفسیر الطبري (۳/ ۶۱۱) تفسیر ابن کثیر (۱/ ۶۰۴) فتح القدیر (۱/ ۶۹۱)