کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 326
خواطرِ قلوب پر محاسبہ تھا اور جب یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر دشوار ہوا،کیوں کہ اس سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے،تو یہ آیت اتری اور طاقت سے زیادہ تکلیف کو اٹھا لیا گیا۔ ’’الفوزالکبیر‘‘ میں کہا ہے کہ یہ عام کی تخصیص کے باب سے ہے۔بعد والی آیت مبین ہے،یعنی اس سے مقصود وہ اخلاص و نفاق ہے،جو تمہارے دلوں میں ہے،دل کی باتیں نہیں،جن میں اختیار نہیں،کیونکہ تکلیف اسی چیز میں ہوتی ہے جو انسان کی وسعت میں ہو۔[1] انتھیٰ۔ اس تقدیر پر مذکورہ آیت غیر منسوخ ہوگی۔امام شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس میں اہلِ علم نے کئی اقوال پر اختلاف کیا ہے: 1۔اگرچہ آیت عام ہے،لیکن کتمانِ شہادت کے ساتھ مخصوص ہے اور چھپانے والے کا اس کے چھپانے پر محاسبہ ہے،چاہے لوگو ں پر اپنا کاتم (شہادت کو چھپانے والا) ہونا ظاہر کرے یا نہ کرے۔یہ سیدنا ابن عباسw،عکرمہ اور مجاہد رحمہما اللہ سے مروی ہے،لیکن اس قول کو رد کردیا گیا ہے،کیونکہ آیت میں لفظ کا عموم ہے اور اس قابل نہیں کہ اس سے پہلے کی کتمِ شہادت کی نہی سے مختص ہو۔ 2۔مذکورہ آیت ان امور سے مختص ہے جو نفوس کو عارض ہوتے اور شک و یقین کے درمیان دائر ہوتے ہیں۔یہ مجاہد کا قول ہے اور یہ حقیقت میں تخصیص بلا مخصص ہے۔ 3۔یہ محکم اور عام ہے،جو نفس میں ہو،اس پر عذاب کفار و منافقین کے ساتھ مختص ہے۔اسے طبری رحمہ اللہ نے ایک قوم سے حکایت کیاہے اور یہ بھی بلا مخصص تخصیص ہے،کیونکہ اﷲ کا ارشاد: ﴿یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ﴾ [البقرۃ: ۲۸۴] [پھر جسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا] بعض کے ساتھ مختص نہیں ہو سکتا۔ 4۔یہ آیت منسوخ ہے۔یہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ،عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ،شعبی،عطا،محمد بن سیرین،محمد بن کعب اور موسیٰ بن عقبہ رحمہ اللہ علیہم کا قول ہے۔نیز سیدنا ابن عباسw،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ علیہم کی ایک جماعت سے روایت کیا گیا ہے اور یہی درست ہے،کیونکہ اس کے نسخ کی صراحت آئی ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آیا ہے:
[1] الفوز الکبیر (ص: ۵۴)