کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 325
ہوگیا اور ندب واستحباب برقرار ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ لوگ اس میں اختلاف کرتے ہیں کہ اشہاد واجب ہے یامندوب؟ ابوموسیٰ اشعری،ابن عمر رضی اللہ عنہم،ضحاک،عطا،سعید بن مسیب،جابر بن زید،داود بن علی ظاہری رحمہ اللہ علیہم اور اس کے فرزند اس طرف گئے ہیں کہ واجب ہے۔طبری نے اسے ہی ترجیح دی ہے۔شعبی،حسن،مالک،شافعی اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہم اور ان کے اصحاب اس طرف گئے ہیں کہ مندوب ہے۔ ان کے درمیان یہ اختلاف آیت: ﴿وَ اَشْھِدُوْآ اِذَا تَبَایَعْتُمْ﴾ [البقرۃ: ۲۸۲] [اور جب آپس میں خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لو] کی و جہ سے سودے پر شاہد بنانے کے وجوب کے بارے میں ہے۔اس معاملے میں اور اس کے ارشاد: ﴿وَاسْتَشْھِدُوْا شَھِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُم﴾ [البقرۃ: ۲۸۲] [اور اپنے مردوں میں سے دو گواہوں کو گواہ بنالو] کے درمیان فرق نہیں ہے،لہٰذا سودے میں اس کے وجوب کے قائلین پر ضروری ہے کہ مداینت میں بھی اسے واجب قرار دیں۔پھر اگر تمھارا بعض بعض سے بے خوف ہو،یعنی جس کا قرض ہے،قرض دار کے ساتھ اپنے حسن ظن کی وجہ سے یا اپنے نزدیک اس کی امانت کے ثبوت اور اس کی امانتداری کی بنا پر اس پر شاہد بنانے سے بے نیاز ہو تو چاہیے کہ موتمن یعنی قرضدار امانت یعنی قرض اسے جس کاقرض اس کے اوپر ہے،ادا کرے۔[1] انتھیٰ۔ یہ آیت کے عدمِ نسخ کا اشارہ ہے۔بعض نے کہا ہے کہ مبایعت مذکورہ سے مقصود آیت میں نقد تجارت ہے،جس میں اشہاد کافی ہے اور کچھ نے کہا ہے کہ ہر سودے میں نقد ہو یا ادھار،کیونکہ یہ مادہ اختلاف کو دورکرنے اور منازعت کی منشا کو کاٹنے کے لیے ہے۔ ستائیسویں آیت: ﴿اِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ﴾ [البقرۃ: ۲۸۴] [اور اگر تم اسے ظاہر کرو جو تمھارے دلوں میں ہے یا اسے چھپاؤ اللہ تم سے اس کا حساب لے گا] کہتے ہیں کہ یہ آیت اس آیت: ﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا﴾ [البقرۃ: ۲۸۶] [اللہ کسی جان کو تکلیف نہیں دیتامگر اس کی گنجایش کے مطابق] سے منسوخ ہے،یعنی اول آیت میں
[1] فتح القدیر (۱/ ۵۱۰)