کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 324
گی۔جب بنو نضیر کے یہود جلاوطن کیے گئے تو ان میں انصار کے بیٹے اور اولاد بھی تھی اور انھوں نے کہا کہ ہم اپنے بیٹوں کو نہیں چھوڑیں گے،اس پر یہ آیت اتری۔[1]
(أخرجہ أبوداؤد والنسائي وابن جریر وابن المنذر وابن أبي حاتم وابن مردویہ والبیہقي في السنن و الضیاء في المختارۃ عن ابن عباس)
یہ قصہ ان کتب میں متعدد وجوہ سے وارد ہوا ہے،جس کا حاصل یہی ہے جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس معنی کے ساتھ متضمن زیادتی کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ انصار نے کہا کہ ہم نے انھیں یہودی بنایا تو اس لیے بنایا کہ وہ سچادین ہے اور ہمارے دین سے افضل ہے۔جب اس وقت اﷲ تعالیٰ دین اسلام لے آیا اور ہمیں مسلمان بنا دیا تو ضروری ہے کہ ہم جبراً انہیں دینِ اسلام میں لائیں،جس پر یہ آیت اتری اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فرزندوں کو اختیار دے دیا اور اسلام پر جبر نہیں کیا۔یہ اس بات کا مقتضی ہے کہ اسلام کے بارے میں اہلِ کتاب پر جبر نہیں ہے،جب تک کہ اپنے دین کو اختیار کریں اور جزیہ دیں۔رہے اہلِ عرب تو آیت اگر چہ ان کو شامل ہے،کیونکہ نفی کے سیاق میں نکرہ اور دین کی تعریف اسی کا فائدہ دے رہی ہے اور اعتبار عمومِ لفظ کا ہے نہ کہ خصوصِ سبب کا،لیکن یہ عموم اسلام پر اہلِ حرب کفار کے اکراہ کے بارے میں وارد آیتوں سے مخصوص ہوگیا۔[2] انتھیٰ کلام الإمام الشوکاني رحمہ اللّٰه۔
چھبیسویں آیت:
﴿وَ اَشْھِدُوْآ اِذَا تَبَایَعْتُمْ﴾ [البقرۃ: ۲۸۲]
[اور جب آپس میں خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لو]
کہتے ہیں کہ یہ آیت اس آیت: ﴿فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُکُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَہ﴾ [البقرۃ: ۲۸۳] [پھر اگر تم میں سے کوئی کسی پر اعتبار کرے،تو جس پر اعتبار کیا گیا ہے وہ اپنی امانت واپس کرے] سے منسوخ ہے،یعنی اول آیت میں باہم بیع کرنے پر اشہاد کو واجب کیا تھا اور اس آیت میں اسے اٹھا دیا،لیکن شافعی اور نخعی رحمہما اللہ کے نزدیک یہ آیت محکم ہے،منسوخ نہیں۔وہ کہتے ہیں کہ مبایعت پر اشہاد کا وجوب اب بھی ثابت ہے۔اکثر مفسرین اس پر ہیں کہ اس کا وجوب نسخ پذیر
[1] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۲۶۸۲) تفسیر ابن جریر (۳/ ۱۰)
[2] فتح القدیر (۱/ ۴۷۱)