کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 323
2۔یہ منسوخ نہیں ہے،یہ خاص اہلِ کتاب کے بارے میں اتری ہے اور اگر وہ جزیہ دینا چاہیں تو ان کا اکراہ اسلام پر نہیں کیا جائے گا،بلکہ وہ اہلِ مکہ اور اہلِ اوثان ہیں،جن سے یاتو اسلام قبول کیا جائے گا یا سیف(تلوار)۔شعبی،حسن،قتادہ اور ضحاک رحمہ اللہ علیہم اس کی طرف گئے ہیں۔
3۔یہ انصار کے بارے میں خاص ہے۔
4۔جو تلوار کی و جہ سے اسلام لایا ہو،اسے مکرہ نہ کہو،کیونکہ دین میں اکراہ نہیں ہے۔
5۔یہ اسیرانِ اہلِ کتاب کے بارے میں وارد ہوئی ہے کہ ان پر اسلام کے لیے جبر نہ کریں۔ابن کثیر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یعنی کسی پر دینِ اسلام میں داخل ہونے کے لیے جبر نہ کرو،کیونکہ وہ روشن اور ظاہر ہے اور اس کے دلائل و براہین نمایاں اور آشکارا ہیں،لہٰذا ضرورت نہیں ہے کہ کسی پر اس میں داخل ہونے کے لیے جبر کیا جائے،بلکہ اﷲ تعالیٰ جس کی راہ نمائی کرے گا اور اس کے سینے کو اس کے لیے کشادہ کر دے گا اور اس کی بصیرت کو روشن کردے گا،وہ بصیرت کی بنیاد پر خود اس میں داخل ہوجائے گا اور جسے اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ نا بینا اور اندھا بنادے گا اور اس کے کان اور آنکھ پر مہر لگا دے گا،تو اسے جبراً دین میں داخل کرنا مفید نہیں ہے اور یہ اس قابل ہے کہ چھٹا قول ہو۔
کشاف میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ایمان کے معاملے کو جبر و قسر پر جاری نہیں کیا ہے،بلکہ میلانِ خاطر اور اختیار پر رکھا ہے۔اسی کے مثل ہے اﷲ تعالیٰ کا یہ ارشاد:
﴿وَ لَوْشَآئَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّھُمْ جَمِیْعًا اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ﴾ [یونس: ۹۹]
[اور اگر تیرا رب چاہتا تو یقینا جو لوگ زمین میں ہیں سب کے سب اکٹھے ایمان لے آتے۔تو کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا،یہاں تک کہ وہ مومن بن جائیں ]
یعنی اگر اﷲ چاہتا تو ان پر ایمان کے لیے جبر کرتا،لیکن اس نے یہ کام نہیں کیا اور معاملے کی بنیاد اختیار پر رکھی اور یہ ساتواں قول ہوسکتا ہے۔قابلِ اعتماد بات اورجس کے پاس رکنا متعین ہے،وہ یہ ہے کہ یہ آیت جس سبب سے اتری ہے،یہ محکم غیر منسوخ ہے اور وہ یہ ہے کہ جب انصار میں کسی عورت کی اولاد زندہ نہ رہتی تو اپنے ساتھ یہ عہدکرتی کہ اگر اس بار بیٹا پیدا ہوا تو اسے یہودی بنادوں