کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 322
نے اپنی صحیح میں اس کی تخریج کی ہے،جس کی روایت ابن جریر نے ان سے کی ہے۔[1] پچیسویں آیت: ﴿لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ﴾ [البقرۃ: ۲۵۶] [دین میں کوئی زبر دستی نہیں ] کہتے ہیں کہ یہ آیت آیتِ سیف ﴿فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَ جَدْتُّمُوْھُمْ﴾ [التوبۃ: ۵] [ان مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو] سے منسوخ ہے۔اول آیت میں اسلام پر کفار کے اکراہ کی نفی تھی،دوسری آیت میں ان سے قتال کا حکم دیا ہے،اگرچہ اکراہ سے ہو۔امام شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اہلِ علم نے اس آیت میں کئی اقوال پر اختلاف کیا ہے: 1۔منسوخ ہے،کیونکہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم) نے اہلِ عرب کا دینِ اسلام پر اکراہ کیا،ان سے قتال کیا اور ان کے اسلام ہی پر راضی ہوئے۔اس کا ناسخ اﷲ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ﴾ [التوبۃ: ۷۳] [اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو] نیز فرمایا: ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ مِّنَ الْکُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غِلْظَۃً وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ﴾ [التوبۃ: ۱۲۳] [اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان لوگوں سے لڑو جو کافروں میں سے تمھارے قریب ہیں اور لازم ہے کہ وہ تم میں کچھ سختی پائیں اور جان لو کہ بے شک اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کے ساتھ ہے] نیز فرمایا: ﴿سَتُدْعَوْنَ اِِلٰی قَوْمٍ اُوْلِی بَاْسٍ شَدِیْدٍ تُقَاتِلُوْنَھُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَ﴾ [الفتح: ۱۶] [عن قریب تم ایک سخت لڑنے والی قوم کی طرف بلائے جاؤ گے،تم ان سے لڑو گے،یا وہ مسلمان ہو جائیں گے] اکثر مفسرین اسی طرف گئے ہیں۔
[1] فتح القدیر (۱/ ۴۴۷)