کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 320
ہے اور یہ قول اجماع سے باہر ہے۔دونوں آیتوں میں منافات نہیں ہے۔
اہلِ علم نے اس صورت میں اختلاف کیا ہے جب شوہر بیوی سے اس سے زیادہ طلب کرے،جو اسے مہروغیرہ دیاہے اور وہ اس پر راضی ہوجائے کہ آیا یہ جائز ہے یا نہیں ؟ تو ظاہر قرآن جواز میں ہے،کیونکہ آیت میں کسی مقدار معین کی قید نہیں ہے۔امام مالک،شافعی اور ابو ثور رحمہ اللہ علیہم اس کے قائل ہیں اور اسی کے مثل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہ اللہ علیہم سے مروی ہے۔طاؤس،عطا،احمد اور اسحاق رحمہ اللہ علیہم نے کہا ہے کہ جائز نہیں۔انتھیٰ۔اس کے بعد اس کے جواز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی احادیث لائے ہیں اوریہی درست ہے۔[1] واللّٰه أعلم۔
تیئسویں آیت:
﴿وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃ﴾ [البقرۃ: ۲۳۳]
[اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں،اس کے لیے جو چاہے کہ دودھ کی مدت پوری کرے]
کہتے ہیں کہ یہ آیت اس آیت: ﴿فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْھُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا﴾ [البقرۃ: ۲۳۲] [پھر اگر وہ دونوں آپس کی رضا مندی اور باہمی مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں ] سے منسوخ ہے۔اس آیت میں ﴿حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ﴾ کا نسخ ہے،لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ استثنا کے باب سے ہے،نسخ کی جنس سے نہیں اور اس کا موید اﷲ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃ﴾ [البقرۃ: ۳۲۳] [جو چاہے دودھ کی مدت پوری کرے] ہے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس لفظ میں دلالت ہے کہ دو سال دودھ پلانا واجب نہیں،بلکہ وہ پوری مدت ہے اور اس سے کمترپر اکتفا کرنا جائز ہے۔اسی لیے فرمایا ہے کہ اگر بچے کو پستان سے دو سال سے پہلے دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر گناہ نہیں ہے،کیونکہ اﷲتعالیٰ نے مدتِ حولین کو اتمامِ رضاعت سے مقید کیا ہے۔[2]
[1] دیکھیں : فتح القدیر (۱/ ۴۱۵۔۴۱۶)
[2] فتح القدیر (۱/ ۴۲۵)