کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 317
بیسویں آیت: ﴿لَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ﴾ [البقرۃ: ۲۲۱] [اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو،یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں ] کہتے ہیں کہ یہ آیت سورۃالمائدہ کی آیت: ﴿وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ﴾ [المائدۃ: ۵] [اور مومن عورتوں میں سے پاک دامن عورتیں اور ان لوگوں کی پاک دامن عورتیں جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی] سے منسوخ ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں مشرکات سے شادی کرنے سے نہی ہے اور اس سے مقصود و ثنیات یعنی بت پرست ہیں۔کہتے ہیں کہ یہ تمام کتابیات کو عام ہے،کیونکہ اہلِ کتاب مشرک ہیں۔ ﴿وَ قَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہ﴾ [التوبۃ: ۳۰] [اور یہودیوں نے کہا: عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہا: مسیح اللہ کا بیٹا ہے] اہلِ علم نے اس آیت میں اختلاف کیا ہے۔ایک گروہ نے کہا ہے کہ اس آیت میں اﷲتعالیٰ نے مشرکات سے شادی کو حرام کیا ہے اور انھیں میں کتابیات شامل ہیں۔اس کے بعد سورۃالمائدہ کی آیت آئی اور کتابیات کو اس عموم سے خاص کردیا۔یہ موقف سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما،امام مالک،سفیان بن سعید،اور اوزاعی رحمہ اللہ علیہم سے مروی ہے۔ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ یہ آیت سورۃالمائدہ کی آیت کی ناسخ ہے اور کتابیات و مشرکات سے شادی کرنا حرام ہے۔یہ شافعی رحمہ اللہ کے دو اقوال میں سے ایک ہے اور اہلِ علم کی ایک جماعت اس کی قائل ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سورۃالبقرۃ پہلے اتری ہے اور سورۃالمائدہ بعد میں۔لہٰذا قول اول راجح ہے اور اس کے قائل عثمان بن عفان،طلحہ،جابر،حذیفہ رضی اللہ عنہم،سعید بن المسیب،سعید بن جبیر،طاؤس،عکرمہ،شعبی اور ضحاک رحمہ اللہ علیہم ہیں،جیسا کہ قرطبی اور نحاس رحمہما اللہ ان سے حکایت کرتے ہیں۔اس کو ابن منذر رحمہ اللہ نے بھی مذکورین سے حکایت کیا ہے اور ان میں سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو زیادہ کیا اور کہا ہے کہ اوائل میں سے کسی سے صحیح ثابت نہیں ہے کہ اس نے اسے حرام کہا ہو۔ بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ لفظ’’مشرک‘‘ اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد کی وجہ سے ﴿مَا یَوَدُّ