کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 316
تک پہنچے،تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:’’انتھینا انتھینا‘‘ [ہم رک گئے،باز آ گئے] [1]
ابن ابی حاتم رحمہ اللہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت لائے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ ہم شراب پیتے تھے تو یہ آیت ﴿یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ …﴾ اتری تو ہم نے کہا ہم اسے پئیں گے،جو ہمیں فائدہ دے،تو سورۃالمائدہ میں ﴿اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِر،الخ﴾ اتری،تو سب نے کہا:’’اللّٰہم! انتھینا‘‘[2] (اے اﷲ! ہم سب باز آگئے) بعض لوگ اس آیت سے بھی تحریم سمجھے ہیں،اس صورت میں یہ منسوخ نہیں ہوگی اور دوسری آیات اس کی موکد و مفسرہوں گی۔واللّٰه أعلم۔
انیسویں آیت:
﴿یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ﴾ [البقرۃ: ۲۱۹]
[وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کیا چیز خرچ کریں ؟ کہہ دے جو بہترین ہو]
کہتے ہیں :’’عفو‘‘ کا معنی فضل،یعنی زائد مال ہے،تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو بھی غذا سے زائد ہوتا،صدقہ کردیتے تھے اور یہ ان پر دشوار تھا،پھر یہ آیت اس آیت: ﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا﴾ [التوبۃ: ۱۰۳] [ان کے مالوں سے صدقہ لے،اس کے ساتھ تو انھیں پاک کرے گا اور انھیں صاف کرے گا] سے منسوخ ہوگئی۔یہ آیت زکات کے ایجاب میں صریح اور مقدارِ واجب اور مقدارِ موجب فیہ کے بارے میں مجمل ہے۔سنت نے اس کو سونے،چاندی،اونٹ اوربقر و غنم اور زراعت کے بارے میں وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ’’عفو‘‘ وہ ہے جو آسان ہو اور دل پر بوجھ نہ بنے۔معنی یہ ہے کہ جو تمہاری ضروریات سے زائد ہو اور اس میں تمھاری جانوں کے لیے مشقت نہ ہو،اسے خرچ کرو۔کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہے جو اہل و عیال کے خرچ سے بڑھ جائے۔جمہور علما نے کہا ہے کہ مقصود رضاکارانہ نفقہ ہے۔نیز کہا گیا ہے کہ یہ آیت فرض زکات کی آیت سے منسوخ ہے۔یہ بھی کہتے ہیں کہ محکم ہے اور مال میں زکات کے سوا بھی کچھ حق ہے۔[3] انتھیٰ۔یہی راجح ہے۔
[1] مسند أحمد (۱/ ۵۳) سنن أبي داود،رقم الحدیث (۳۶۷۰) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۳۰۴۹) سنن النسائي (۸/ ۳۸۶) المستدرک للحاکم (۴/ ۱۴۳)
[2] تفسیر ابن أبي حاتم (۲/ ۳۹۰) فتح القدیر (۱/ ۳۹۱)
[3] فتح القدیر (۱/ ۲۹۲)