کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 314
سترھویں آیت:
﴿یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّھْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہ﴾ [البقرۃ: ۲۱۷]
[وہ تجھ سے حرمت والے مہینے کے متعلق اس میں لڑنے کے بارے میں پوچھتے ہیں ]
کہتے ہیں کہ یہ آیت اﷲ کے اس ارشاد: ﴿وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃ﴾ [التوبۃ: ۳۶] [اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو] سے منسوخ ہے۔(أخرجہ ابن جریر عن عطاء بن میسرۃ)
یعنی آیت اول میں حرمت والے مہینوں میں کافروں کے ساتھ ابتداءً قتال کو حرام کیا گیا تھا اور وہ حرمت والے مہینے رجب،ذیقعدہ،ذی الحجہ اور محرم ہیں،پھر اس کے بعد قتال کو حل و حرم میں جائز قرار دیا گیا۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا اور سفیان ثوری رحمہ اللہ نے یہی فرمایا ہے۔[1]مگر شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے’’الفوزالکبیر‘‘ میں فرمایا ہے کہ یہ آیت تحریمِ قتال پر دلالت نہیں کرتی،بلکہ اس کی تجویز پر دال ہے اور یہ علت کو تسلیم کرنے اور بندش کو ظاہر کرنے کے قبیل سے ہے،لہٰذا اس کا معنی یہ ہے کہ حرمت والے مہینے میں قتال بہت بڑی چیز ہے،لیکن فتنہ اس سے زیادہ سخت ہے،لہٰذا اس کے مقابلے میں جائز ہوگا۔اس کے سیاق سے یہ توجیہ ظاہر ہے،جیسا کہ پوشیدہ نہیں۔[2] انتھیٰ۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نے’’فتح القدیر‘‘ میں فرمایا ہے کہ جمہور کے نزدیک اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے کفارِ قریش! تم حرمت والے مہینے میں قتال کو بڑی چیز سمجھتے ہو اور حالت یہ ہے کہ جو کچھ تم کرتے ہو،جیسے راہِ خدا سے،مسجد حرام سے اور جو اسلام کا ارادہ کرے،اس کو روکنا اور اہلِ حرم کو حرم سے نکالنا،اﷲ کے نزدیک یہ جرم وگناہ میں اس سے بڑھ کر ہے۔اس کا سببِ نزول اس معنی کا شاہد ہے،کیونکہ یہ سوال ان کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے لشکر سے جو ہوا،اس کے انکار کے طور پر تھا اور فتنے کا معنی کفر ہے،یعنی تمہارا کفر اس قتل سے بڑھ کر ہے جو اس لشکر میں ہوا۔[3]
اٹھارویں آیت:
﴿یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ قُلْ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ اِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا﴾ [البقرۃ: ۲۱۹]
[1] فتح القدیر (۱/ ۳۸۶)
[2] الفوز الکبیر (ص: ۵۴)
[3] فتح القدیر (۱/ ۳۸۴)