کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 309
تھا روزہ چھوڑ دیتا تھا اور فدیہ دیتا تھا۔اس کے بعد یہ آیت: ﴿فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ﴾ اتری،یعنی یہ اس کی ناسخ ہے۔[1] ابن جریر رحمہ اللہ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت اس بوڑھے کے بارے میں ہے،جو روزہ نہ رکھ سکتا ہو تو وہ چھوڑدے اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ابن ابی شیبہ،عبد بن حمید،دار قطنی اور بیہقی رحمہ اللہ علیہم یہ روایت لائے ہیں کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنی وفات سے ایک سال پہلے روزے رکھنے سے کمزور ہوگئے تو انھوں نے ایک بڑا برتن ثرید تیار کرکے تیس مسکینوں کو بلا کر انھیں کھلا دیا۔نیز عبد بن حمید،ابن جریر اور دارقطنی رحمہ اللہ علیہم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت لائے ہیں کہ انھوں نے اپنی حاملہ یا مر ضعہ لونڈی سے کہا کہ تو اس کے درجے میں ہے جو روزے کی طاقت نہیں رکھتا،لہٰذا تجھ پر کھانا کھلانا ہے،قضا نہیں ہے۔نیز عبد بن حمید،ابو حاتم اور دار قطنی رحمہ اللہ علیہم نے سیدناابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت کیا ہے کہ ان کی ایک دختر نے،جو حاملہ تھی،ان سے صومِ رمضان کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ روزہ چھوڑدے اور ہر روزایک مسکین کو کھلا دے۔اس کے مثل تابعین کی ایک جماعت سے بھی روایت کیا گیا ہے۔[2] انتھیٰ۔ میر غلام علی آزاد بلگرامی رحمہ اللہ’’مآثر الکرام‘‘ میں لکھتے ہیں کہ میر طفیل محمد بلگرامی رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ جس وقت میں اور علامہ مرحوم میر عبدالجلیل بلگرامی اکبر آباد گئے اور نواب فضائل خان کی مجلس میں اول دفعہ وارد ہوئے،تو نواب فضلا کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے،اتفاقاً ذکر علمی کے دوران میں نواب کی زبان سے نکلا کہ آیت ﴿وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْن﴾ میں بعض مفسرین’’لا‘‘ مقدر مانتے ہیں۔میرے دل میں ایک توجیہ گزری ہے کہ’’لا‘‘ کی تقدیرکے بغیر سلبی معنی پیدا ہوجاتا ہے۔یعنی یہ باب افعال سے ہے اور ہمزہ اِفعال سلب کے لیے بھی آتا ہے،لہذا’’یطیقونہ‘‘‘’لا یطیقونہ‘‘ کے معنی میں ہے۔حاضرین نے تعریف کے ہونٹ کھول دیے۔میں نے کہا: اگر حکم ہو تو ایک بات عرض کروں ؟ نواب نے اجازت دی۔میں نے کہا: یہ توجیہ نہایت درست ہے،بشرطیکہ معنی سلبی’’إطاقۃ‘‘ میں سنا گیا ہو،کیونکہ ہمزہ سلب بابِ افعال میں سماعی ہے نہ کہ قیاسی۔تفسیر فخرالدین رازی،کشاف،بیضاوی اور دیگر کتبِ تفاسیر اور
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۴۲۳۷) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۱۴۵) [2] فتح القدیر (۱/ ۳۳۲)