کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 308
کو کھلاکر روزہ نہ رکھنے کا اختیار دے دیا،اس کے بعد’’تخییر‘‘ کو مذکورہ آیت سے منسوخ کر دیا اور بیمار و مسافر کے سوا ہر ایک پر علی التعیین روزہ واجب رہ گیا۔ امام سیوطی رحمہ اللہ نے’’الإتقان‘‘ میں کہا ہے کہ کہا گیا ہے کہ یہ آیتِ مذکورہ سے منسوخ ہے اور کہا گیا ہے کہ محکم ہے اور’’لا‘‘ مقدر ہے۔[1]‘’الفوزالکبیر‘‘ میں دوسری وجہ بیان کی گئی ہے۔یعنی آیت کا معنی یہ ہے کہ’’وعلی الذین یطیقون الطعام فدیۃ ہي طعام مسکین‘‘ [ان لوگوں پر جو کھانا کھلانے کی طاقت رکھتے ہیں،فدیہ لازم ہے اور وہ ایک مسکین کا کھانا ہے] تو اس میں اضمار قبل الذکرہے،کیونکہ وہ رتبے میں پہلے ہے۔ضمیر مذکر کا اس لیے ذکر کیا ہے کہ فدیے سے مقصود کھانا ہے،جو صدقہ فطرہے اور اﷲ تعالیٰ نے روزے کے حکم کے بعد اس آیت میں صدقۂ فطر کو رکھا ہے،جیسے کہ آیت ثانیہ میں اس کے بعد تکبیر اتِ عید کو رکھا ہے۔[2] انتھیٰ۔اس تقدیر پر یہ آیت منسوخ نہیں ہوگی۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے’’فتح القدیر‘‘ میں لکھا ہے کہ اہلِ علم نے اس آیت میں اختلاف کیا ہے کہ محکم ہے یا منسوخ۔کہا گیا ہے کہ منسوخ ہے اور صیام فرض ہونے کی ابتدا میں یہ رخصت تھی،کیونکہ ان پر روزہ مشکل اور دشوار تھا،تو جو روزانہ مسکین کو کھلاتا تھا،وہ طاقت کے باوجود روزہ نہیں رکھتا تھا،اس کے بعد یہ طریقہ منسوخ ہوگیا۔یہ جمہور کا قول ہے۔بعض اہلِ علم سے روایت کیا گیا ہے کہ منسوخ نہیں،بلکہ ان بوڑھے خواتین و حضرات کے لیے خصوصیت سے رخصت ہے،اس وقت جب وہ بغیر مشقت کے روزہ نہ رکھ سکتے ہوں۔یہ تشدید کی قراء ت کے مناسب ہے،یعنی جب انھیں مشقت محسوس ہو۔اس آیت کا ناسخ جمہور کے نزدیک اﷲ تعالیٰ کا یہ ارشاد: ﴿فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ﴾ [البقرۃ: ۱۸۵] [تو تم میں سے جو اس مہینے میں حاضر ہو] ہے۔فدیے کے بارے میں اختلاف ہے،انھوں نے کہا ہے کہ ہر روز گیہوں کے علاوہ سے ایک صاع دے یاگیہوں سے نصف صاع اور صرف ایک’’مد‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی نسخ کے قائل ہیں۔صحیح بخاری و مسلم میں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب آیت: ﴿وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہ،الخ﴾ اتری تو جو چاہتا تھا روزہ رکھتاتھا اور جو چاہتا
[1] الإتقان (۲/ ۶۰) [2] الفوز الکبیر (ص: ۵۳)