کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 307
دوسری تقدیر پر یہ مطلب ہے کہ جیسے ان پر روزہ شکن چیزوں سے رکنا واجب کیا تھا،ایسے ہی ان پر بھی واجب کیا گیا۔[1] انتھیٰ۔ اس صورت میں اس کا نسخ متعین نہیں ہو سکتا۔اسی لیے امام سیوطی رحمہ اللہ نے’’الإتقان‘‘ میں آیتِ کریمہ: ﴿اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ﴾ [البقرۃ: ۱۸۷] [تمھارے لیے روزے کی رات اپنی بیویوں سے صحبت کرنا حلال کر دیا گیا ہے] کے تحت کہا ہے کہ اس کو ﴿کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ﴾ [البقرۃ:۱۸۳] [جیسے ان لوگوں پر لکھا گیا جو تم سے پہلے تھے] کا ناسخ کہتے ہیں،کیونکہ اس کا مقتضا سونے کے بعد اکل و وطی کی حرمت میں موافقت ہے،اسے ابن العربی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے اور حکایت کیا ہے کہ یہ سنت سے منسوخ ہے۔[2] انتھیٰ۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے’’الفوزالکبیر‘‘ میں کہا ہے کہ تشبیہ،نفسِ وجوب میں ہے،اس لیے یہ منسوخ نہیں ہے،بلکہ ایسی چیز کی تبدیلی ہے جو ان کے نزدیک شریعت سے پہلے تھی۔میں نے اس پر کوئی دلیل نہیں پائی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے یہ دستور (شریعت) بنایا تھا اور اگر تسلیم کریں تو یہ سنت سے ہوگا۔[3] انتھیٰ۔ گیارھویں آیت: ﴿وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ﴾ [البقرۃ: ۱۸۴] [اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ ایک مسکین کا کھانا ہے،پھر جو شخص خوشی سے کوئی نیکی کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے اور یہ کہ تم روزہ رکھو تمھارے لیے بہتر ہے] کہا گیا ہے کہ یہ آیت اس آیت: ﴿فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ﴾ [البقرۃ: ۱۸۵] [تو تم میں سے جو اس مہینے میں حاضر ہو وہ اس کا روزہ رکھے] سے منسوخ ہے۔یعنی اﷲ نے اس امت پر رمضان کا روزہ فرض کیا اور ان کو روزہ رکھنے اور ہر دن کے بدلے نصف صاع گیہوں مسکین
[1] فتح القدیر (۱/ ۳۲۹) [2] الإتقان (۲/ ۶۰) [3] الفوز الکبیر (ص: ۵۳)