کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 305
احمد،اسحاق اور ابو ثور رحمہ اللہ علیہم ہیں۔جمہور عورت کے بدلے مرد کے قتل کی طرف دیت میں زیادتی کے بغیر گئے ہیں اور یہی درست ہے اور اس بحث کی تفصیل’’شرح منتقیٰ‘‘ میں ہے۔[1] نویں آیت: ﴿کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَنِ الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ﴾ [البقرۃ: ۱۸۰] [تم پر لکھ دیا گیا ہے،جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے،اگر اس نے کوئی خیر چھوڑی ہو،اچھے طریقے کے ساتھ وصیت کرنا ماں باپ اور رشتے داروں کے لیے،متقی لوگوں پر یہ لازم ہے] کہتے ہیں کہ یہ آیتِ میراث سے منسوخ ہے اور کہا گیا ہے کہ حدیث: ((لَا وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ)) [2] [وارث کے حق میں وصیت نہیں ہے] سے منسوخ ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ اجماع سے منسوخ ہے،جسے ابن العربی رحمہ اللہ نے حکایت کیا ہے۔اس کے نسخ کی طرف ابن عباس رضی اللہ عنہ،مجاہد،عکرمہ اور ضحاک رحمہ اللہ علیہم گئے ہیں۔ ’’الفوزالکبیر‘‘ میں کہا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ یہ آیت،اس آیت: ﴿یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ﴾ [النساء: ۱۱] [اللہ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں تاکیدی حکم دیتا ہے] سے منسوخ ہے اور مذکورہ آیت اس نسخ کی وضاحت کرتی ہے۔[3] انتھیٰ۔ طاؤس،قتادہ اور حسن بصری رحمہ اللہ علیہم وغیرہ نے کہا ہے کہ منسوخ نہیں ہے،بلکہ وصیت و میراث کے درمیان تطبیق ممکن ہے۔ شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ آیت کے بارے میں اہلِ علم مختلف ہیں کہ یہ آیت محکم ہے یامنسوخ؟ ایک جماعت کا مذہب ہے کہ محکم ہے،ان کا کہنا ہے کہ آیت اگرچہ عام ہے،لیکن اس کا معنی مخصوص ہے اور اس سے مقصود وہ والدین ہیں جو وارث نہیں ہوتے،جیسے کافر ماں باپ اور
[1] فتح القدیر (۱/ ۳۲۳) نیز دیکھیں : نیل الأوطار (۷/ ۹۴) [2] اس کی تخریج گزر چکی ہے۔ [3] الفوز الکبیر (ص: ۵۲۔۵۳)