کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 304
﴿اَلنَّفْسَ بِالنَّفْسِ﴾ کا مفسر ہے۔نیز اس کا یہ ارشاد: ﴿وَ کَتَبْنَا عَلَیْھِمْ فِیْھَا﴾ [المائدۃ: ۴۵] [اور ہم نے اس میں ان پر لکھ دیا] فائدہ دے رہاہے کہ یہ اس چیز کی حکایت ہے،جسے اﷲ نے تورات میں بنی اسرائیل کی شریعت بنایا تھا۔
دوسری جماعت کے ادلہ میں سے یہ حدیث ہے:
((اَلْمُسْلِمُوْنَ تَتَکَافَأُ دِمَائُہُمْ)) [1] [مسلمانوں کے خون برابر ہیں ]
اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث مجمل ہے اور آیت مبین ہے،لیکن وہ کہتے ہیں کہ آیت: ﴿اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ﴾ [البقرۃ: ۱۷۸] [آزاد (قاتل) کے بدلے وہی آزاد (قاتل) اور غلام (قاتل) کے بدلے وہی غلام (قاتل)] اپنے منطوق سے حر کے بدلے حر اور عبد کے بدلے عبد کے قتل پر دال ہے اور اس میں یہ دلالت نہیں ہے کہ حر کو عبد کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا،مگر مفہوم کے اعتبار سے۔تو جس نے اس جیسا مفہوم لیا ہے،اسے یہاں بھی یہی مفہوم لینا ضروری ہے اور جس نے اسے نہیں لیا ہے،اس کے لیے اس مفہوم کو لینا ضروری نہیں ہے۔اس مسئلے کی مفصل بحث علمِ اصول میں مذکور ہے۔
اس آیت سے کافر کے بدلے مسلم کے قتل کے قائلین نے استدلال کیا ہے،جو ثوری رحمہ اللہ اور اہلِ کوفہ ہیں،کیونکہ حر کافر کو شامل ہے،جیسے مسلمان کو شامل ہے۔ایسے ہی عبد اور انثیٰ کافر کو شامل ہے،جیسے مسلم کو شامل ہے۔نیز اﷲ کے ارشاد: ﴿اَلنَّفْسَ بِالنَّفْسِ﴾ سے استدلال کیا ہے کہ نفس،نفس کافرہ ومسلمہ دونوں پر صادق ہے۔
جمہور کا مذہب کافر کے بدلے مسلم کا عدمِ قتل ہے اور ان کی دلیل سنت سے یہ حدیث: ((لَا یُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِکَافِرٍ)) [2] [مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا] ہے۔یہ دونوں آیات کے معنی کی مبیّن ہے اور اس میں طویل بحث ہے۔اس سے ذکر کے بدلے انثی کے عدمِ قتل کے قائلین نے استدلال کیا ہے اور اس پر دلالت کو ویسے ہی بیان کیا ہے،جیسے کہ گزراہے،مگر جس وقت کہ عورت کے اولیا اس کی دیت مرد کی دیت سے زیادہ دیں،اس کے قائل امام مالک،امام شافعی،امام
[1] مسند أحمد (۱/ ۱۱۹) سنن أبي داود (۴۵۳۰) سنن النسائي (۸/ ۱۹) سنن ابن ماجہ (۲۶۸۵)
[2] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۱۱۱)