کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 303
سلسلے میں تحقیقی بات یہ ہے کہ ہر نجس حرام ہے اور ہر حرام نجس نہیں،جیسا کہ دوسری مؤلفات میں ہم نے تحقیق کی ہے۔ آٹھویں آیت: ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی﴾ [البقرۃ ۱۷۸] [اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر مقتولوں میں بدلہ لینا لکھ دیا گیا ہے،آزاد (قاتل) کے بدلے وہی آزاد (قاتل) اور غلام (قاتل) کے بدلے وہی غلام (قاتل) اور (قاتلہ) عورت کے بدلے وہی (قاتلہ) عورت ہو گی] کہتے ہیں کہ یہ آیت اس آیت: ﴿اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ﴾ [المائدۃ: ۴۵] [جان کے بدلے جان ہے] سے منسوخ ہے۔یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ،شعبی،قتادہ،سعید بن المسیب اور نخعی رحمہ اللہ علیہم نے فرمایا ہے۔یہ بھی کہتے ہیں کہ آیت: ﴿وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْل﴾ [بني اسرائیل: ۳۳] [اور جو شخص قتل کر دیا جائے،اس حال میں کہ مظلوم ہو تو یقینا ہم نے اس کے ولی کے لیے پورا غلبہ رکھا ہے پس وہ قتل میں حد سے نہ بڑھے] سے منسوخ ہے۔حسن،عطا،عکرمہ اور عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہم نے کہا ہے کہ یہ آیت محکم ہے،منسوخ نہیں ہے۔اس کا بیان یہ ہے کہ اس آیت: ﴿اَلْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی﴾ کا مفہوم یہ ہے کہ ذکر کو انثیٰ کے عوض نہ مارا جائے اور یہ آیت مذکورہ سے منسوخ ہے۔ایسے ہی اس ارشاد: ﴿وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ﴾ کا مفہوم یہ ہے کہ غلام کے بدلے آزاد کو نہ قتل کیا جائے اور یہ بھی منسوخ ہے،کیونکہ اسراف ہے۔ایسے ہی کافر کے بدلے مسلمان کا قتل ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے’’فتح القدیر‘‘ میں کہا ہے کہ جمہور نے استدلال کیا ہے کہ غلام کے بدلے آزاد نہیں مارا جائے گا۔ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب،ثوری،ابن ابی لیلیٰ اور داود رحمہ اللہ علیہم کا مذہب غلام کے بدلے آزاد کا قتل ہے۔قرطبی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ علی رضی اللہ عنہ و ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے۔سعید بن مسیب،قتادہ،ابراہیم نخعی اور حکم بن عتبہ رحمہ اللہ علیہم بھی اس کے قائل ہیں۔ ان کا استدلال آیت: ﴿اَلنَّفْسَ بِالنَّفْسِ﴾ سے ہے اور اس استدلا ل کا جماعت اول نے یہ جواب دیا ہے کہ اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ کا ارشاد: ﴿اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ﴾ اس کے ارشاد: