کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 302
ساتویں آیت: ﴿اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ﴾ [البقرۃ: ۱۷۳] [اس نے تو تم پر صرف مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور ہر وہ چیز حرام کی ہے جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے] کہتے ہیں کہ یہ سنت سے منسوخ ہے،جس میں بعض خون جائز قرار دیے گئے ہیں۔میں کہتا ہوں کہ یہ مخصوص کی جنس سے ہے نہ کہ منسوخ کی،لہٰذا اس کو اس میں داخل کرنا غلط ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے’’نیل الأوطار‘‘ میں فرمایا ہے کہ اس عموم کی ((أُحِلَّ لَنَا دَمَانِ وَمَیْتَتَانِ)) [1] (أخرجہ أحمد وابن ماجہ والدارقطني والحاکم وابن مردویہ عن ابن عمر) جیسی حدیث،نیز جابر رضی اللہ عنہ کی عنبر سے متعلق صحیح[2] میں ثابت شدہ جیسی حدیث سے اور اﷲ سبحانہٗ کے اس ارشاد: ﴿اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ﴾ [المائدۃ: ۹۶] [تمھارے لیے سمندر کا شکار حلال کر دیا گیا] سے تخصیص کی گئی ہے۔آیت میں مذکورہ’’میتۃ‘‘ سے مراد خشکی کا مردار ہے نہ کہ سمندر کا۔اکثر علما کا مذہب ہے کہ تمام سمندری جانوروں کا کھانا،چاہے زندہ ہوں یا مردہ،جائز ہے۔بعض نے کہا ہے کہ وہ جانور حرام ہے،جو خشکی کے حرام جانور کے مشابہ ہو۔ابن حبیب رحمہ اللہ نے سمندری خنزیر کے بارے میں توقف کیا ہے اور ابن قاسم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ میں اس سے پرہیزکرتا ہوں اور حرام نہیں کہتا۔خون کی حرمت پر علما کا اتفاق ہے۔دوسری آیت میں : ﴿دَمًا مَّسْفُوْحًا﴾ (رواں خون) آیاہے،لہٰذا مطلق مقید پر محمول ہوگا،کیونکہ وہ خون جو گوشت سے آمیز ہو،حرام نہیں ہے۔قرطبی رحمہ اللہ نے اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کیا ہے کہ وہ گوشت پکاتی تھیں تو خون کی زردی ہنڈیا کے اوپر چڑھ آتی تھی۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم وہ گوشت کھاتے اور انکار نہیں فرماتے تھے۔[3] انتھیٰ۔ نیز اس میں خونوں کی طہارت پر دلالت ہے اور حرمت ونجاست میں تلازم نہیں ہے۔اس
[1] مسند أحمد (۲/ ۹۷) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۳۳۱۴) سنن الدارقطني (۴/ ۲۷۱) سنن البیھقي (۱/ ۲۵۴) [2] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۲۳۵۱) [3] فتح القدیر (۱/ ۲۶۱) نیز دیکھیں : تفسیر القرطبي (۲/ ۲۱۰) یہ حدیث کسی کتاب میں باسند نہیں مل سکی۔