کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 298
خرچ کرتے ہیں ] اور ﴿وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰکُمْ﴾ [المنافقون: ۱۰] [اور اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمھیں دیا ہے] اور اس کے مانند آیات سے متعلق بتاتے ہیں کہ آیتِ زکات سے منسوخ ہیں۔سیوطی رحمہ اللہ نے’’الإتقان‘‘ میں اس کا انکار کیا اور فرمایا ہے کہ یہ برقرار ہیں،کیونکہ اول انفاق پر تعریف کے ضمن میں خبر ہے اور اس کی تفسیر زکات،اہل و عیال اور امور مندوبہٖ،جیسے اعانت ومہمان نوازی میں انفاق سے ہوسکتی ہے۔اس آیت میں اس کی دلیل نہیں کہ اس سے مقصود زکات کے سوا نفقہ واجبہ ہے۔دوسری آیت کو زکات پر محمول کرنا صحیح ہے اور اسی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے۔[1] انتھیٰ۔ سیدنا ابن عباس،قتادہ رحمہ اللہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم اسی طرف گئے ہیں۔ضحاک رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ وہ نفقات کے ذریعے خدائے تعالیٰ کی طرف آسان مقدار اور اپنی کوشش بھر کے ساتھ تقرب کی جستجو کررہے تھے،پھر سورت براء ت میں زکات کے فرائض اترے اور وہ ناسخ مبین ہے۔شوکانی رحمہ اللہ نے’’فتح القدیر‘‘ میں افادہ کیا ہے کہ ابن جریر رحمہ اللہ کے نزدیک مختار،اقربا و غیر اقربا پر نفقہ اور فرض و نفل کے درمیان فرق کے بغیر زکات و صدقے میں آیت کا عموم ہے اور یہی درست ہے۔انفاق کی صورتوں میں سے کسی صورت کی،جس پر انفاق کا نام درست ہو،صراحت کا نہ ہونا اس کی تعمیم کا پورا شعور پیدا کررہا ہے۔[2] انتھیٰ۔ دوسری آیت: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا وَ النَّصٰرٰی وَ الصّٰبِئِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ [البقرۃ: ۶۲] [بے شک جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی بنے اور نصاریٰ اور صابی،جو بھی اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا تو ان کے لیے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے] کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا آیت اس آیت: ﴿وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْن﴾ [آل عمران: ۸۵] [اور جو اسلام کے علاوہ کوئی دین تلاش کرے
[1] الإتقان للسیوطي (۲/ ۵۹) [2] فتح القدیر (۱/ ۵۴)