کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 287
ہے کہ عقلاً جائز ہے اور اس پر اہلِ علم کا اتفاق نقل کیا ہے۔وجود کے بارے میں جمہور کا مذہب یہ ہے کہ’’ہوا نہیں ہے‘‘ اور اس پر اجماع نقل کیا ہے۔اہلِ ظاہر میں سے ایک جماعت،جن میں ابن حزم رحمہ اللہ شامل ہیں،اس کے وجود کی طرف گئے ہیں اور ایک روایت میں امام احمد رحمہ اللہ بھی اور غزالی و ابو الولید باجی اور قرطبی رحمہ اللہ علیہم نے کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوا ہے،اس کے بعد نہیں۔ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗ﴾ [الأنعام: ۱۴۵] [کہہ دے میں اس وحی میں،جو میری طرف کی گئی ہے،کسی کھانے والے پر کوئی چیز حرام نہیں پاتا جسے وہ کھائے] کا نسخ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر کچلی والے درندے اور ہر پنجے سے شکار کرنے والے پرندے کے کھانے کی نہی سے ہواہے اور یہ آحاد ہے۔[1] وہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس کا معنی’’لا أجد الآن‘‘ [اب میں نہیں پاتا] ہے،جب کہ تحریم مستقبل میں ہوئی ہے۔نکاحِ متعہ کا نسخ اس کی نہی سے ہونے کا ثبوت ہے اور یہ آحاد ہے اور ایسا بہت زیادہ ہے۔جو چیز صحیح آحاد کے اپنے سے دلالت و متن میں اقویٰ کے نسخ پر راہنمائی کرتی ہے،یہ ہے کہ ناسخ کا آنا درحقیقت منسوخ کے حکم کے استمرار اور اس کے دوام کے اٹھانے کے لیے ہوتا ہے اور یہ ظنی ہے،اگر چہ اس کی دلیل قطعی ہو تو منسوخ یہی ظنی ہے نہ کہ وہ قطعی۔[2] فتأمل۔ 10۔سنت متواترہ سے قرآن کا نسخ: قرآن کا نسخ سنتِ متواترہ سے جمہور کے نزدیک جائز ہے اور اسے حنفیہ بھی مانتے ہیں،جیسا کہ اس آیت: ﴿کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَنِ الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ [البقرۃ: ۱۸۰] [تم پر لکھ دیا گیا ہے،جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے،اگر اس نے کوئی خیر چھوڑی ہو،اچھے طریقے کے ساتھ وصیت کرنا ماں باپ اور رشتہ داروں کے لیے] کا نسخ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ((لَاوَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ)) [3] [وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے] سے ہوا ہے۔یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ آیت،آیتِ مواریث سے منسوخ ہے،کیونکہ دونوں کے مابین
[1] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۹۳۴) [2] إرشاد الفحول (۲/ ۶۸) [3] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۲۸۷۰) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۲۷۱۳)