کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 285
بیہقی نے فرمایا ہے کہ’’عشر‘‘ یہاں اس میں سے ہے،جس کا حکم اور رسم دونوں منسوخ ہیں اور’’خمس‘‘ کی رسم منسوخ اور حکم برقرار ہے،اس دلیل سے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم کو یکجا کیا تو اس آیت کو نہیں لکھا،جبکہ اس کا حکم ان کے نزدیک برقرار ہے۔ابن السمعانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بات کہ’’ہي مما یتلٰي من القرآن‘‘ کا معنی یہ ہے کہ اس کا حکم متلو ہے نہ کہ لفظ۔بیہقی نے فرمایا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ جسے اس کی تلاوت کا نسخ نہیں پہنچا ہے،وہ اس کی تلاوت کرتا ہے۔[1] 5۔رسم منسوخ ہو نہ کہ حکم،اور اس کے ناسخ کا پتا نہ ہو،جیسا کہ صحیح میں آیا ہے: ((لَوْ کَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِیَانِ مِنْ ذَھَبٍ لَتَمَنّٰی لَھُمَا ثَالِثًا،وَلَا یَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ،وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلیٰ مَنْ تَابَ)) [2] [اگر ابن آدم کے پاس دو سونے سے بھری ہوئی وادیاں ہوں تو وہ ان کے ساتھ تیسری کی تمنا کرے گا۔ابن آدم کے پیٹ کو صرف (قبر کی) مٹی ہی بھر سکتی ہے۔اللہ تعالیٰ جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے،اس کی توبہ قبول کرتا ہے] کیونکہ یہ قرآن تھا جس کی رسم منسوخ ہے نہ کہ اس کا حکم۔حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے’’تمہید‘‘ میں کہا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ یہ سورۂ’’ص‘‘ میں تھی اور جیسے صحیح میں مروی ہے کہ قرآن میں اہلِ بئر معونہ کی حکایت کا نزول ہوا کہ انھوں نے کہا:’’بلغوا قومنا أن قد لقینا ربّنا فرضي عنا وأرضانا‘‘[3] [ہماری قوم کو یہ پیغام پہنچا دو کہ ہماری اپنے رب تعالیٰ کے ساتھ ملاقات ہو گئی ہے،وہ ہم سے راضی ہو گیا ہے اور ہمیں بھی راضی کر دیا ہے] اور جیسا کہ مستدرک میں حاکم رحمہ اللہ زر بن حبیش رحمہ اللہ کی روایت سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے لائے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے یہ آیت پڑھی ﴿لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾اور اس میں پڑھا: ((إِنَّ ذَاتَ الدِّیْنِ عِنْدَ اللّٰہِ الْحَنِیْفِیَّۃُ لَا الْیَھُوْدِیَّۃُ وَلَا النَّصْرَانِیَّۃُ وَمَنْ یَّعْمَلْ خَیْراً فَلَنْ یُّکْفَرَ)) [4]
[1] إرشاد الفحول (۲/ ۶۵) [2] مسند أحمد (۵/ ۱۱۷) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۳۸۹۸) [3] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۱۰۰۳) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۶۷۷) [4] المستدرک للحاکم (۲/ ۵۳۱)