کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 276
جھونپڑی کا شوق کرتا رہے۔أمابعد! اﷲ کی مخلوق میں اس کی طرف سب سے زیادہ فقیر و محتاج اور جو کچھ اس کے پاس ہے،اس کا سب سے زیادہ ضرورت مند شخص کہتا ہے کہ چونکہ قرآن کریم اور مخبر رؤف رحیم کی خبروں کے ناسخ و منسوخ کا علم،علوم میں سب سے اہم ہے،کیونکہ ان دونوں (قرآن و سنت) پر عمل اور ان سے تمسک اس (ناسخ و منسوخ) کے جاننے پر موقوف ہے اور جو اس سے ناآشنا ہو،وہ بڑے خطرے میں مبتلا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کسی چیز کے جواز کا حکم لگائے،جو تحریم کے ساتھ منسوخ ہو یا کسی چیز کی تحریم کا فیصلہ دے،جب کہ وہ جواز سے منسوخ ہو یا ناسخ کو منسوخ جانے یامنسوخ کو ناسخ شمار کرے۔ اس لیے ائمہ امت اور علماے ملت نے فرمایا ہے کہ کسی کے لیے کتاب اﷲ کی تفسیر کرنا اور سنت سے تمسک کرنا،اس کے ناسخ ومنسوخ کو جاننے کے بعد ہی جائز ہے۔ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے ایک واعظ سے پوچھا: ناسخ و منسوخ کو پہچانتے ہو؟ اس نے جواب دیا: نہیں۔تو فرمایا کہ تم خود بھی ہلاک ہوگئے اور دوسروں کو بھی ہلاک کر دیا۔[1] اسی طرح عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما اور عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انھوں نے اس طرح کے واعظین کو ناسخ و منسوخ کو نہ جاننے کی وجہ سے قرآن کی تفسیر اور وعظ کرنے سے روک دیا۔[2] حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ناسخ و منسوخ کے عالم کے سوا کسی کے لیے لوگوں کو وعظ کرنا اور قرآن کی تفسیر کرنا جائز نہیں ہے۔[3] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کسی سے اس کی مخالفت ثابت نہیں،تو گویا اس علم کی معرفت کے وجوب اور اس کے جانے بغیر قرآن و سنت میں عدمِ تکلم پر ان کا اتفاق ہے۔یہیں سے اہلِ علم کی ایک بڑی جماعت نے اس موضوع پر کتابیں تصنیف کیں اور ناسخ کو منسوخ سے جدا کیا ہے۔ان مصنفین میں سے کچھ درجہ ذیل ہیں : (۱) مکی بن ابی طالب القیسی المقری،(۲)ابو جعفر النحاس،(۳) ابوبکرمحمد بن عبداﷲ بن العربی،(۴) ابو داود سجستانی،(۵) ابو عبید قاسم بن سلام،(۶) ابوسعیدعبدالقاہر بن طاہر التیمی،(۷) شیخ جلال
[1] مصنف ابن أبي شیبۃ (۵/ ۲۹۰) سنن البیھقي (۱۰/ ۱۱۷) [2] المعجم الکبیر (۱۰/ ۲۵۹) [3] الناسخ والمنسوخ للنحاس (ص: ۵۱)