کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 269
وسوسے کا معنی حدیثِ نفس (دل کی بات) ہے۔بعض نے کہا کہ وسواس شیطان کے فرزند کا نام ہے۔
﴿خَنَّاسِ﴾ کے معنی ہیں’’کثیرالتأخر‘‘۔مجاہد رحمہ اللہ نے کہا کہ جب بندہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو شیطان منقبض ہو جاتا ہے اور جب ذکر نہیں کرتا تو دل پر منبسط ہو جاتا ہے۔اس کے کثیرالاختفاء [بہت زیادہ چھپنے والا] ہونے کے سبب اس کا نام خناس ہوا۔ظاہر تو یہ ہے کہ مطلق اللہ تعالیٰ کا ذکر شیطان کو دور کرتا ہے،اگرچہ بطور استعاذہ نہ ہو۔اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے میں فوائد جلیلہ ہیں،جس کا نتیجہ دونوں جہانوں میں خیر و بھلائی کے ساتھ کامیابی کا حاصل ہونا ہے۔
فرمانِ الٰہی ﴿اَلَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ﴾ کے متعلق قتادہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ کتے کی سونڈ کی طرح شیطان کی ایک سونڈ ہے،جسے وہ انسان کے سینے پر رکھے رہتا ہے۔جہاں آدمی اللہ کے ذکر سے غافل ہوا،اسی وقت وسوسہ کیا اور جہاں اللہ کو یاد کیا تو وہ پیچھے ہٹ گیا۔
مقاتل رحمہ اللہ نے کہا کہ شیطان بہ صورت خنزیر ہے،وہ خون کی طرح انسان کی رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اسے انسان پر مسلط کیا ہے۔اس کا وسوسہ یہی ہے کہ وہ خفیہ بات کے ذریعے چپکے چپکے آدمی کو اپنی طاعت کی طرف بلاتا ہے،حتیٰ کہ وہ بات اس کے دل میں اتر جاتی ہے بغیر اس کے کوئی آواز سنائی دے۔
پھر فرمایا کہ یہ شیاطین دو طرح کے ہوتے ہیں،ایک شیاطینِ جن،جو سینوں میں وسوسہ انداز ہوتے ہیں اور دوسرے شیاطینِ انس،ان کا وسوسہ لوگوں کے سینوں میں یوں ہوتا ہے کہ یہ اپنے آپ کو آدمی کے سامنے خیرخواہ اور مشفق ظاہر کرتے ہیں۔شیطان کے وسوسے سے جو بات دل میں پڑتی ہے،ویسے ہی ان کی بات کا انسان کے دل میں اثر ہوتا ہے۔یا اس کا یہ مطلب ہے کہ شیطان کا وسوسہ جنوں اور انسانوں کی طرف سے لوگوں کے سینوں میں ڈالتا ہے۔
بعض نے کہا کہ لفظ ناس میں جن و انس دونوں شامل ہیں۔ان کی دلیل یہ ہے کہ جنوں کے کچھ افراد آئے تو ان سے سوال کیا گیا کہ تم کون ہو؟ انھوں نے جواب دیا’’نَاسٌ مِّنَ الْجِنِّ‘‘ یعنی ہم لوگ جن ہیں۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان کا نام’’رجال‘‘ رکھا ہے،جیسے فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِن﴾ [الجن: ۶]
[اور یہ کہ بلاشبہہ بات یہ ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے بعض لوگوں کی