کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 268
ساری مخلوق کا رب ہے،پھر اس جگہ جو ﴿بِرَبِّ النَّاسِ﴾ فرمایا تو وہ اس لیے کہ یہ ناس کے شرف پر دلیل ہو،نیز اس لیے کہ یہ اس شر سے استعاذہ ہے جو ﴿صُدُوْرِ النَّاسِ﴾ میں واقع ہوتا ہے۔ فرمانِ الہٰی ﴿مَلِکِ النَّاسِ﴾ میں یہ بیان ہے کہ اللہ کی بادشاہی ویسی بادشاہی نہیں ہے جس بادشاہی کے تحت ممالیک ہوتے ہیں،بلکہ اس کی سلطنتِ قاہرہ اور مملکتِ کاملہ سب پر فائق ہے۔ ارشادِ الہٰی ﴿اِِلٰـہِ النَّاسِ﴾ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اس کی ربوبیت کے ساتھ معبودیت و الوہیت بھی لگی ہوتی ہے،جو ایجاد و اعدام کے ساتھ تصرف کلی پر قدرتِ تامہ کا تقاضا کرتی ہے۔رب کبھی ملک (بادشاہ) ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا،جیسے’’رب الدار‘‘ اور’’رب المتاع‘‘۔اسی مفہوم میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ﴾ [التوبۃ: ۳۱] [انھوں نے اپنے عالموں اور اپنے درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا] اسی لیے رب کے بعد ملک کا ذکر کیا۔پھر کبھی کوئی ملک الٰہ ہوتا ہے اور کبھی نہیں،اس لیے ملک کے بعد ﴿اِِلٰـہِ النَّاسِ﴾ فرمایا،کیوں کہ یہ نام مبارک اس کے ساتھ خاص ہے،اس وصف میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ نیز اس کا آغاز نامِ رب سے کیا اور یہ نام اس کا ہے جو انسان کی اوائلِ عمرسے تا بلوغ و عقل تدبیر و اصلاح کے ساتھ قائم ہے،تاکہ آدمی دلیل کے ساتھ یہ بات پہچان لے کہ میں رب ملک کا ایک بندہ ہوں۔ پھر جب یہ بات جان لے کہ اس کی عبادت مجھ پر واجب ہے اور میں ایک عبد مخلوق ہوں اور وہ الہٰ معبود ہے تو اب اس کا ﴿اِِلٰـہِ النَّاسِ﴾ ہونا روشن ہوگیا۔اس سورت میں لفظ ناس کو تکرار کے ساتھ لانے میں مزید شرف کا اظہار ہے کہ بار بار ان کا نام لیا۔یا پہلے’’ناس‘‘ سے مراد بچے،دوسرے سے جوان،تیسرے سے بوڑھے،چوتھے سے صالحین اور پانچویں سے مفسدین ہیں،لیکن اس تخصیص کی کوئی وجہ نہیں ہے۔نسفی کا یہ کلام لطائفِ بیان کی قبیل سے ہے نہ کہ تفسیرِ قرآن سے ہے۔[1] فرمانِ باری تعالیٰ: ﴿ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ﴾ میں’’وسواس‘‘ سے مراد وسوسہ انداز ہے۔
[1] تفسیر النسفي (۴/۲۹۴)