کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 262
زوالِ نعمت کی تمنا اور خواہش کرنا ہے۔﴿اِِذَا حَسَد﴾ کا مطلب یہ ہے کہ ظاہر کر دے اور اس کے مطابق عمل درآمد کرے اور وہ حسد اس کو محسود پر ایقاعِ شر پر برانگیختہ کرے۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’لم أر ظالمًا أشبہ بالمظلوم من حاسد‘‘ [میں نے کوئی ظالم نہیں دیکھا جو حاسد سے زیادہ مظلوم کے مشابہ ہو] اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمومًا تمام مخلوق کے شر سے پناہ پکڑنے کی ہدایت کی ہے،پھر بعض شرور کا خصوصًا ذکر فرمایا،اگرچہ وہ عموم کے تحت داخل تھے۔اس کا سبب یہ ہے کہ ان میں مزید شر اور زیادہ ضرر ہے۔ان شرور میں ایک غاسق دوسرا نفاثات اور تیسرا حاسد ہے۔زیادہ شر کے سبب یہ تینوں گویا اس لائق ہیں کہ ان کو الگ الگ ذکر کیا جائے۔سورت کا خاتمہ حسد پر کیا ہے،تاکہ یہ بات معلوم ہو جائے کہ حسد زیادہ برا اور سخت ہے۔حسد ہی وہ پہلا گناہ ہے جس کے ساتھ آسمان میں ابلیس اور زمین میں قابیل نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تھی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمانِ باری تعالیٰ: ﴿وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِِذَا حَسَدَ﴾ کی تفسیر یوں فرمائی ہے:’’نفس ابن آدم و عینہ‘‘ (حاسد سے مراد ابن آدم کا نفس [دم] اور اس کی آنکھ [نظر بد] ہے) [1] واللّٰہ أعلم۔
[1] فتح البیان (۱۵/۴۶۲)