کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 261
مشرک ہوا اور جس نے کوئی چیز (گلے وغیرہ میں) لٹکائی وہ اسی کو سونپا گیا۔‘‘ [1] ٔخرجہ النسائي وابن مردویہ) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا مروی ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تجھے وہ دم نہ کروں جو جبریل علیہ السلام نے مجھ کو کیا تھا؟ میں نے کہا: ہاں !’’بأبِي أنت و أمي‘‘ [میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((بِسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیْکَ،وَاللّٰہُ یَشْفِیْکَ مِنْ کُلِّ دَائٍ فِیْکَ وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِيْ الْعُقَدِ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ))[اللہ کے نام کے ساتھ میں تجھے دم کرتا ہوں،اللہ تعالیٰ تمھارے اندر موجود ہر بیماری سے تجھے شفا عطا کرے گا اور گرہوں میں پھونک مارنے والیوں اور حسد کرنے والے کے شر سے تمھیں دم کرتا ہوں ] تین بار اس کو پڑھا۔‘‘ [2] (أخرجہ ابن ماجہ وابن سعد والحاکم) دم،منتر اور تعویذ کرنے کے جواز میں اختلاف ہے۔جمہور صحابہ،تابعین اور ان کے بعد آنے والے لوگوں نے جائز کہا ہے،بشرطیکہ وہ شرعی طریقے پر ہو۔اس کی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعًا مروی حدیث ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں میں سے کوئی بیمار ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر معوذات پڑھ کر پھونکتے۔[3] (الحدیث) ایک جماعت نے دم میں تھوکنے اور پھونکنے کا انکار کیا ہے اور بغیر تھوکنے کے پھونکنے کو جائز رکھا ہے۔عکرمہ رحمہ اللہ نے کہا کہ دم کرنے والے کے لیے جائز نہیں کہ وہ تھوکے یا مسح کرے یا گرہ لگائے۔ نسفی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ آیت یا حدیث کے ساتھ دم کرنا جائز ہے نہ کہ وہ دم جو سر یانی،عبرانی یا ہندی میں ہو،کیونکہ اس کا اعتقاد کرنا حلال نہیں ہے اور نہ اس پر اعتماد کرنا جائز ہے۔[4] فرمانِ باری تعالیٰ: ﴿وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِِذَا حَسَدَ﴾ میں ﴿حَسَدَ﴾ سے مراد محسود سے
[1] سنن النسائي،رقم الحدیث (۴۰۷۹) اس کی سند میں’’عباد بن میسرۃ‘‘ راوی ضعیف اور حسن بصری مدلس ہیں۔ [2] سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۳۵۲۴) اس کی سند میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف اور زیاد بن ثویب مجہول ہیں۔دیکھیں : السلسلۃ الضعیفۃ (۳۳۵۷) [3] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۴۱۷۵) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۲۱۹۲) [4] فتح البیان (۱۵/۴۶۱) نیز دیکھیں : تفسیر النسفي (۴/۲۸۴)