کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 260
﴿شَرِّ مَا خَلَقَ﴾ سے ساری مخلوق مراد ہے،اس میں سارے ہی شرور آ گئے۔یہ شر عام ہے اور اس کے بعد جو تین شر ذکر کیے گئے ہیں،وہ خاص ہیں۔بعض نے اس سے ابلیس،اس کی ذریت اور جہنم مراد لی ہے،لیکن اس جگہ تخصیص کی کوئی وجہ نہیں ہے اور نہ جسمانی اضرار [تکالیف] ہی اس عموم سے خاص ہیں۔ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی قراء ت ﴿مِنْشَرٍ﴾ تنوین کے ساتھ ہے،لیکن اس میں نہایت بُعد اور ضعف ہے،یعنی اس شر سے جو ہنوز پیدا نہیں ہوا۔ فرمانِ خداوندی: ﴿وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِِذَا وَقَبَ﴾ میں ﴿مِنْ غَاسِقٍ﴾ سے رات اور’’غَسَق‘‘ سے رات کا اندھیرا مراد ہے۔زجاج رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ رات کو غاسق اس لیے کہتے ہیں کہ یہ دن کی نسبت زیادہ سرد ہوتی ہے۔بارد کو غاسق اور برد کو غسق کہتے ہیں،لیکن یہ قول بارد (کمزور) ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ ﴿ غَاسِقٍ﴾ ثریا ہے یا سورج،جبکہ وہ غروب ہو یا چاند جبکہ وہ غائب ہو جائے یا سانپ جبکہ وہ کاٹ کھائے یا ہر ناگہاں آنے والا جو ضرر پہنچائے یا بھیک مانگنے والا جبکہ سوال کر کے تنگ کرے،لیکن راجح قول پہلا ہی ہے۔ ارشادِالہٰی: ﴿وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ﴾ میں ﴿اَلنَّفّٰثٰتِ﴾ سے مراد وہ عورتیں ہیں،جو جادو کیاکرتی ہیں۔نفث کے معنی ہیں پھونکنا،جس طرح منتر کرنے والے دم کرتے ہیں،خواہ اس کے ساتھ ریق (تھوک) ہو یا نہ ہو۔ یہ آیت معتزلہ کے قول کے بطلان پر دلیل ہے،کیوں کہ وہ جادوکے وقوع پذیر ہونے کا انکار کرتے ہیں۔’’عُقَدٌ‘‘ عقدۃ کی جمع ہے۔لبید بن اعصم کی بیٹیاں جادو کرتے وقت دھاگے پر گرہیں لگاتی تھیں۔انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا تھا۔ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نفاثات بمعنی ساحرات (جادو گرنیاں) ہے۔ایک دوسری روایت میں ان سے یہ الفاظ مروی ہیں کہ نفث وہ منتر ہے،جس میں جادو کی آمیزش ہو۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کوئی گرہ لگائی،پھر اس میں پھونکا،اس نے جادو کیا اور جس نے جادو کیا،وہ