کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 259
اس میں ایک کنگھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے کچھ بال تھے اور ایک تانت تھی،اس میں سوزن زدہ بارہ گرہیں تھیں،اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ دو سورتیں (فلق اور ناس) نازل فرمائیں۔ہر آیت (کی تلاوت) پر ایک گرہ کھل گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبیعت میں خفت محسوس کی۔جب آخری گرہ کھلی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں اٹھ کر کھڑے ہوئے،جیسے کسی بندھن سے آزاد ہو گئے ہوں۔جبریل علیہ السلام نے آ کر ان الفاظ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کیا: ((بِسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیْکَ مِنْ کُلِّ شَیْیٍٔ یُّؤْذِیْکَ،مِنْ حَاسِدٍ وَ عَیْنٍ اَللّٰہُ یَشْفِیْکَ))[اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کرتا ہوں،ہر اس چیز سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تکلیف دہ ہے اور ہر حاسد اور نظر بد سے،اللہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شفا عطا فرمائے گا] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: کیا ہم اس خبیث کو گرفتار کر کے اسے قتل نہ کر دیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے شفا دی،اب مجھے لوگوں پر شر کو برانگیختہ کرنا پسند نہیں ہے۔‘‘[1] واللّٰہ أعلم۔ تفسیر فتح البیان (اس سے نواب صاحب رحمہ اللہ کی اپنی عربی تفسیر مراد ہے) میں ہے کہ ﴿اَلْفَلَقِ﴾ بمعنی صبح ہے،مثلًا کہتے ہیں :’’ھو أبین من فلق الصبح‘‘ [وہ صبح پھوٹنے سے بھی زیادہ واضح ہے۔] بعض نے کہا ہے کہ ﴿اَلْفَلَقِ﴾ جہنم میں ایک درخت ہے،یا یہ نار (آگ) کا نام ہے،یا یہ آگ میں ایک قید خانے کا نام ہے،یا اس سے مراد پہاڑ اور پتھر ہیں کہ ان میں سے پھٹ کر پانی بہتا ہے۔نحاس رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ﴿اَلْفَلَقِ﴾ ہموار زمین کو کہتے ہیں،یا اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو حیوان،نباتات اور جماد سے پھٹ کر نکلتی ہے،گویا ﴿اَلْفَلَقِ﴾ بمعنی شق ہے،جیسے فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰی﴾ لیکن پہلا قول ہی زیادہ اولیٰ اور بہتر ہے۔[2] فلق کے ذکر میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو تمام عالم سے ان ظلمات کے ازالے پر قادر ہے،اس کو یہ قدرت بھی حاصل ہے کہ وہ پناہ گیر سے ہر خوف و خشیت کو بھی دور کر دے۔یا طلوع صبح آمدِ فرحت کی ایک مثال ہے کہ جس طرح انسان رات کو طلوعِ فجر کا انتظار کرتا ہے،اسی طرح خائف اور پناہ گیر نجاح و فلاح کی صبح کا منتظر ہوتا ہے۔
[1] تفسیر ابن کثیر (۴/۷۴۸) [2] فتح البیان (۱۵/۴۵۷)